نگر نگر اور گلی گلی کھمبیوں کی طرح اگ آنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سے بہت سی تو بلاشبہ مقامی سطح کے داداگیروں نے محض اپنی چھت سے محروم سفید پوشوں سے رقم بٹورنے کی نیت سے بنا رکھی ہیں اور انہیں ان کے مسائل اور پریشانیوں سے چنداں سروکار نہیں۔ تاہم بہت سی ایسی بھی ہیں جن کے مدار المہاموں میں سرِآئینہ خواہ کوئی بھی ہو، پسِ آئینہ اس ملک کی طاقتور ترین قوتیں کارفرما ہیں۔ لیکن ان میں سے بھی متعدد کے مکینوں اور منتظرینِ سکونت کے حالات جانیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ وسائل کی بہتات کے باوجود آخر ان سوسائٹیز کے اربابِ بست و کشاد بے حس کیوں ہیں اور یہاں آ بسنے والے اہلِ قوت و ثروت بھی وہاں کی ابتر صورتحال پر خاموش کیوں ہیں؟

ان دنوں جونہی لاہور کے ایسے ہی ایک طاقتور گروہ کی آشیرباد سے بسائی گئی ہاؤسنگ سوسائٹی کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوں تو داہنے ہاتھ مرکزی شاہراہ کے کنارے ایستادہ دیوقامت تجارتی عمارات کے داخلی دروازوں سے لے کر سروِس روڈ کو نہر میں بدلتے ہوئے اُس کے کنارے بنی پختہ پستہ قد منڈیر سے بلند ہوتے اور چھلک کر نام نہاد مین بولیوارڈ پر آتے ہوئے بدبودار گدلے پانی پر نظر ٹھہر جاتی ہے اور سانس بند ہوجاتی ہے۔ لیکن ہفتوں کے ہفتے گزر جانے کے باوجود نہ تو سوسائٹی کے اربابِ حل و عقد کو کوئی تشویش لاحق ہوئی اور نہ ہی اس بدنظمی اور بدتہذیبی سے بری طرح متاثر ہونے والی دکانوں، دفاتر اور وہاں صبح و شام آنے والے سیکڑوں افراد ہی نے اپنی خریدوفروخت کا ٹھکانہ بدلنے کا اعلان کیا۔ متاثرین علاقہ نے اس اجتماعی مسئلے کو حل کرانے کےلیے نہ تو اجتماعی طور پر سوسائٹی والوں کو مجبور کیا اور نہ اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج لائن میں موجود کسی مخفی پیچیدگی کا کھوج لگانے اور اس کا سدباب کرنے کا سوچا۔ تاہم مسئلے کا ایک حل ضرور نکالا گیا۔ اور وہ تھا انفرادی حل۔

ہر ایک نے اپنی اپنی بصیرت اور استطاعت کے مطابق اپنی اپنی دکانوں یا دفاتر کے سامنے موجود گندے پانی پر مٹی، پتھر، ریت، بجری، ملبہ، اینٹیں، لکڑیاں اور تھرموپول وغیرہ ڈلوا دیں۔ چنانچہ اب جب تک گٹر کم کم ابلتے ہیں، تب تک سب کا کام چلتا رہتا ہے اور جب وہ کچھ زیادہ ابلنے لگتے ہیں تو سب مزید مٹی کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔

ہمارے طلبا ووہان میں تھے۔ وہاں کورونا آگیا۔ ہم نے سوچا اگر بچے بیمار ہوئے تو ہم ان کا علاج کیسے کریں گے؟ چنانچہ مٹی ڈالو۔ بہتر ہے انہیں وہیں مقید رہنے دو۔ قطع نظر اس بات کے کہ ان کے پاس حلال خوراک ہو یا نہ ہو، اسے خریدنے کے پیسے ہوں یا نہ ہوں اور وہ کہیں دستیاب ہو یا نہ ہو۔

حکومت چند ووٹوں کے سہارے پر قائم ہے۔ بی این پی مینگل، ایم کیو ایم، ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اپنے متعدد رہنما ناراض ہیں۔ حکمران کسی ایک کو بھی مکمل یا جزوی طور پر خوش نہیں کر پارہے، بس ہر مسئلے پر مٹی ڈال رہے ہیں۔

ہم ہر ریویو سے پہلے اور پھر اس کے نتائج آنے سے پہلے خوب خوب ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہمارے شاندار اقدامات نے سب کو حیران اور پریشان کردیا ہے۔ چنانچہ اب کی بار تو ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر کلین چٹ لے کر ہی لوٹیں گے۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بعد میں پوچھیں کہ آپ نے دعوے تو کچھ اور کیے تھے مگر نتیجہ کوئی اور آیا ہے تو جواب، مٹی ڈالو۔

جب ہم حکومت میں نہیں ہوتے تو کبھی لارڈ میکالے کا رونا روتے ہیں، تو کبھی مدارس، میٹرک اور او لیولز والے نظاموں میں موجود تفریق کا ماتم کرتے ہیں۔ محدود تعلیمی بجٹ کا نوحہ پڑھتے ہیں، سہولیات سے عاری درس گاہوں کا شکوہ کرتے ہیں تو کبھی فنی و اعلیٰ تعلیم کے مفقود مواقع و مہنگی تعلیم کو کوستے ہیں۔ لیکن حکومت میں آتے ہی تعلیمی ایمرجنسی لگانے کے سارے دعوے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔ اب پوچھو کہ ’جی صاحب! کیا ہوا تیرا وعدہ‘ تو جواب ملے گا مٹی ڈالو۔

اقتدار میں آنے سے پہلے پولیس اور پٹوار خانہ مسائل کی جڑ، سارا نظام اکھاڑ پھینکنے کی بڑھکیں، حکومت ملنے کے بعد مٹی ڈالو۔

اقتدار ملنے سے پہلے ٹیکس جمع کرنے اور اندرون ملک سرمایہ کاری لانے کے ایک سو ایک طریقوں پر لیکچر، اقتدار میں آنے کے بعد مٹی ڈالو۔

اقتدار ملنے سے پہلے جیلوں کی ناگفتہ بہ حالتِ زار، اسپتالوں کے باہر بچے جنتی ماؤں سے ہمدردی، پولیس اور نامعلوم قوتوں کے ہاتھوں مار دیے یا اٹھا لیے جانے والے بچوں کا ماتم، انسانی حقوق کی علمبرداری، اقتدار ملنے کے بعد وہی مٹی ڈالو پالیسی برقرار۔

ایوب خان کو دس سال لوگ سمجھاتے رہے، مشرق والوں کو کچھ نہیں مل رہا، ملک کے تمام وسائل پر مغرب کا قبضہ ہے۔ مشرق میں بھوک اور بے بسی بڑھ رہی ہے۔ وہ مٹی ڈالتے رہے۔ یحیٰی کے دور میں ملک ٹوٹنے کے قریب پہنچا تو اپنے پرانے ساتھی الطاف گوہر سے کہنے لگے ’یہ لوگ ملک کو بند گلی کی طرف لے جارہے ہیں‘۔

ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دلا دی، ملک کو ’’مسلمان‘‘ کردیا۔ آئین کا حلیہ بدل کر رکھ دیا۔ اپنے عظیم بلدیاتی ادارے اور غیرجماعتی اسمبلیاں بنالیں۔ اپنی من مانی سیاسی جماعتیں اور لیڈر پیدا کرلیے۔ گویا اوپر سے لے کر نیچے تک سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پوری پرانی لیڈرشپ کا قلع و قمع کرکے دس سال لگا کر اپنی طرف سے مکمل طور پر ’’نیا پاکستان‘‘ بنا لیا۔ بی بی شہید واپس آئیں تو پورا لاہور بند ہوگیا۔ قصوروار جونیجو کو قرار دے ڈالا اور برطرف کردیا۔ یہ نہ سوچا کہ مٹی ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ نیا میک اپ کرنے سے انسان نہیں بدلتے۔ دل نہیں بدلتے۔

جو بولا، مشرف اور اس کے حواریوں نے بندوق اٹھا لی۔ کیا اکبر بگٹی تو کیا سانحہ بارہ مئی۔ جب افتخار چوہدری اور وکلا کا سہارا لے کر قوم ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تو بولے قوم کی اتنی خدمت کی، ان لوگوں کو بعد میں پتہ چلے گا کہ یہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ نہ سوچا کہ بندوق معاملات کو دبا تو سکتی ہے حل نہیں کرسکتی۔

لیکن خیر! قطع نظر اس بات کے کہ ہونا کیا چاہیے اور ہوتا کیا ہے کہ یہ بحث تو روز ازل سے جاری ہے۔ ہم سب کو اگر واقعی آگے بڑھنا ہے تو پہلے اس عظیم رجلِ رشید کو پہچاننا اور خراج عقیدت پیش کرنا ہوگا کہ جو دوغلا نہیں۔ باقی تمام حکمرانوں کی طرح اندر اور باہر سے مختلف نہیں۔ زبان پر بھی وہی لاتا ہے جو دل میں ہوتا ہے۔ جی ہاں! یہ عظیم ہستی ہے سابق وزیراعظم اور بزرگ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی کہ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یعنی کہتے بھی یہی ہیں کہ کچھ نہیں ہوا اور کرتے بھی کچھ نہیں، جبکہ باقی سب باتیں اور دعوے تو ہمالیہ سے بھی اونچے کرتے ہیں لیکن عملاً صرف مٹی ڈالتے ہیں۔ گویا باقی سب کا قول ہمالیہ اور فعل مٹی ڈالنا ہے، جب کہ چوہدری شجاعت حسین کا قول و فعل دونوں مٹی ڈالنا ہے۔

آئیے رب کے حضور دعا کریں کہ پروردگار ہمیں کم از کم ایسے حکمران عطا کردے جن میں اور کچھ ہو نہ ہو، کم از کم چوہدری صاحب جتنی اخلاقی جرأت تو ہو۔ اور وہ جب الیکشن کمپینز میں جائیں، عوامی اجتماعات و پریس کانفرنسز سے خطاب کریں تو بھی ڈھول بجا کر کہیں کہ مٹی ڈالو۔ تاکہ کم از کم مختلف جماعتوں کے حامی یہ مقابلہ کرنا تو چھوڑ دیں کہ میرے لیڈر کا وژن یہ ہے اور تمہارے کا یہ۔ جب اصل سب کی ایک ہے تو زبانی وژن کو کیا بھاڑ میں جھونکنا ہے؟

جب پورے ملک نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ ہم کرائسز ریزولوشن پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور ہمیشہ کرائسز منیجمنٹ سے ہی کام چلائیں گے۔ یہاں تک کہ کوئی ملا فضل اللہ سوات پر قبضہ کرلے یا کوئی حافظ سعید گلے کے ہار کے بجائے پھندا بن جائے یا کوئی ایف اے ٹی ایف یا آئی ایم ایف ڈنڈا لے کر ہمارے سر پر کھڑی ہوجائے۔ کم از کم ہم اس وقت تک تو صرف چوہدری صاحب کے عظیم وژن کے مطابق محض مٹی ہی ڈالیں گے۔ بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ تو پھر کیوں نہ بابائے قوم کے اصول ایمان، اتحاد، تنظیم کے بجائے بابائے گجرات کے فلسفے ’مٹی ڈالو‘ کو علی الاعلان ملک و قوم کا رہنما اصول قرار دے دیا جائے؟ کم از کم ہم منافقوں کی صف سے تو نکل جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post مٹی ڈالو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2uRd309

Post a Comment Blogger

 
Top