ایسا لگتا ہے کہ ’عورت مارچ‘ کے ذریعے ہم اندرونی زخموں کو رِستا چھوڑ کر اوپری جلد سینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجتاً زخم بھریں گے نہ مسئلہ حل ہوسکے گا ۔کیا راستہ روکنا مسئلے کا حل ہے یا بڑھتے طوفان کو درست سمت دینا؟ سوال یہ ہے کہ وہ چند غیر مناسب سے نعرے، جنہیں آپ کے معاشرے کی اکثر عورتوں نے خود رَد کر دیا، وہ توجہ کا مرکز کیوں بن گئے؟
کون ایسا ہوگا، جو ایسے مادر پدر آزادی کو راہ دیتے نعروں کی حمایت کر سکے، مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ ان چند مطالبات کی آڑ میں آپ پورے ’مارچ‘ کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ آپ ’حقوق نسواں‘ کے عَلم بردار‘ نہ ہوں، مگر یہ تو مانیں کہ اس پدر سری سماج میں بہت سے علاقوں میں عورت کی حیثیت آج بھی پیر کی جوتی جتنی ہے۔ آپ ’فیمینسٹ‘ نہ بنیں، مگر یہ تو مانیں کہ ہمارے معاشرے کی عورت آج بھی مختلف مسائل میں گھِری ہوئی ہے اور کیا صرف یہ مان لینا ہی کافی ہے؟ ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش بھی آپ کو کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس بات سے انکار کس کو ہے کہ اسلام سے زیادہ کسی مذہب نے عورت کو بحیثیت انسان وہ اہمیت نہیں دی، مگر سوال یہ ہے کہ اسلام کے پیروکاروں نے وہ حقوق عورت کو دیے ہیں یا نہیں؟
ذرا سوچیں کیا اب یہ صرف چند خواتین ہیں؟ اب غیر ملکی امداد کی بات نہ کیجیے گا۔ اس کی وجہ ہم ہیں۔ ہم نے انہیں دھکیل کر خود سے جدا کر کے ان کی گود میں ڈال دیا۔ جانتے ہیں کیسے؟
جب خراش زدہ چہرے، سوجی ہوئی آنکھیں، زخمی اور ٹوٹے ہوئے ہاتھ لے کر وہ ہمارے پاس آئی، تو ہم نے اسے دھتکار دیا کبھی یہ کہا کہ ’’اپنی لَلّو نہیں چلانی چاہیے تھی ناں!‘‘ کبھی اِس کے نشئی شوہر کے باوجود اُسے یہ کہا کہ ’’اب وہی تمہارا گھر ہے، بیٹا برداشت کرو، اپنے لیے نہیں تو اپنے بچوں کیلئے ہی سہی۔‘‘
جب وہ تیزاب سے جھلسائی گئی، تو آپ کے طعنوں نے اس کی جھلسے ہوئے زخموں پر نمک پاشی کی کہ تم نے ہی غلطی کی ہوگی یا تم نے ہی کسی راہ چلتے کو شہہ دی ہو گی۔ اسے شوہر نے گھر سے نکال دیا، تو آپ نے اپنے گھر کے دروازے بھی بند کر دیے۔ وہ بیوہ ہوئی تو آپ نے زندگی کی ساری خوشیاں اس کے لیے ممنوع کر دیں۔ وہ طلاق یافتہ ہوئی، تو آپ نے کہا ’’طلاق کا داغ‘‘ اس کے ماتھے پہ ان مٹ سیاہی سے نقش کر دیا کہ اب یہ گھر بسانے کے قابل نہیں۔
بات تلخ ہے، مگر سوچیے گا ضرور! رونے کے لیے ایک کندھا تو سب کو چاہیے ہوتا ہے! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور پھر ڈوبتا ہوا کب یہ دیکھتا ہے کہ وہ تنکا کس شاخ کا ہے۔ اسے تو بس جان بچانے کی فکر ہوتی ہے، ایسے میں دشمن بھی ہاتھ بڑھائے، تو وہ دوست لگتا ہے۔ یہ آپ اور میں ہی ہیں، جنہوں نے ایسے نعرے لگانے والوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں، تو قصور کس کا ہوا؟
اب بھی وقت ہے، ہم سب کو اپنی سمت درست کرنا ہوگی اور یہی بات خواتین کے حقوق کی جنگ لڑتی عورتوں کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں۔ اگر آپ اصلی مسائل پر بات کریں گی، اور مبہم اور ذومعنی نعروں سے جان چھڑائیں گی، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ صرف مخصوص فکر کی خواتین آپ کے ساتھ نہ ہوں، بلکہ مردو وزن سمیت پورا باشعور سماج آپ کا ہم آواز ہو اور برابری اور مساوات کا معاشرہ قائم ہو جائے۔
The post ’حقوق نسواں‘ کی لڑائی کس طرف نکل گئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ubnzbp
Post a Comment Blogger Facebook