سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا نا انصافیوں، دکھوں، غموں، بھوک و افلاس ، فاقوں، بے روزگاری ، جہالت اور بیماریوں سے رشتہ جائز ہے یا ناجائز اور یہ کہ یہ رشتہ عارضی ہے یا دائمی اور یہ بھی کہ آخر ہمارے کرتا دھرتا اپنے ہی لوگوں کو زندہ درگورکرنے پرکیوں تلے ہوئے ہیں۔

کوئی بھی ریاست اس وقت تک قائم ودائم اور مضبوط ہوتی ہے جب تک اس میں بسنے والے لوگ خو شحال، بااختیار اور مضبوط ہوتے ہیں،ان میں باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی ہوتی ہے لیکن اگر صورتحال اس کے بالکل الٹ ہوجائے تو وہ ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی ہے۔کنفیوشس سے اس کے شاگر د نے پوچھا کہ ’’کسی ملک کی سلامتی وفلاح اور اصلاح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ ’’کسی ملک کی فلاح وبقا کے لیے تین چیزیں اہم ہیں۔ (۱) طاقتور فوج (۲) خوراک کی افراط (۳) عوام کی باہمی یکجہتی ، ہم آہنگی اور خوشحالی۔ شاگرد نے پھر سوال کیا کہ اگر یہ تینوں بیک وقت میسر نہ آسکیں تو پھر؟

کنفیوشس نے جواب میں کہا اگر طاقتور فوج نہیں ہوگی توکوئی بات نہیں،کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتے ہیں۔ عوام اپنا دفاع خودکرلیں گے۔ شاگرد نے پھر پوچھا کہ ان باقی دونوں چیزوں میں سے وہ کون سی چیز ہے کہ جس کے بغیر گذارہ ہوسکتا ہے توکنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہوگی توکوئی بات نہیں کسی نہ کسی طرح گذارہ ہو ہی جائے گا، عوام باہم مل کر اس کمی کامقابلہ کرلیں گے لیکن اگر عوام میں ہم آہنگی اور یکجہتی اور خوشحالی نہیں ہوگی تو ملک کی تباہی اور بربادی یقینی ہے۔ کنفیوشس کے نزدیک ریاست کا تصورایک فلاحی ریاست کا ہے۔

اکیونس کہتا ہے کہ انسان نے اپنی فطری ضرورتوں کے تحت ریاست کو متعارف کروایا جب کہ بودین کا کہنا ہے کہ ایک بھرپور ریاست وہ ہے جو یہ کوشش کرتی ہے کہ انسان کی تمام ضروریات کو پوراکر ے کیونکہ انسان کو ریاست کے روایتی ستونوں سے بڑھ کر بہت کچھ چاہیے ہوتا ہے۔ دوسری طرف کوٹلیا نے کہا تھا کہ کسی دور میں جب ریاست نہیں تھی تو وہاں ’’مچھلی کا قانون ‘‘ رائج تھا یعنی چھوٹی مچھلی کو بڑی مچھلی ہڑپ کر ڈالتی تھی امیروں کے استحصال سے بچنے کے لیے لوگوں نے ریاست کی بنیاد رکھی۔

ادھر گوڈون کے خیال میں انسان میں کوئی بھی بہتری لانے کی کوشش کرنے سے پہلے سیاسی انصاف کو اولیت ملنی چاہیے۔گلے سڑے معاشرے میں اصلاح کی کوشش کرنا لاحاصل ہے لیکن اگر درست معاشرہ حاصل کیا جاسکے تو فرد کی اصلاح خودبخود ہوجائے گی۔

انسان کی کوتاہیاں معاشرے کی ناقص دساتیر اور ان کے ناگزیر نتائج کی وجہ سے ہیں ڈاکا زنی، دھوکہ ، کرپشن ، لوٹ مارکا منبع اس معاشرے کی انتہائی فطرت میں ہی ہے جس میں ہم رہتے ہیں اگر ہر ایک انسان کامل سہولت کے ساتھ اشیاء ضروریہ حاصل کرسکے تو لالچ کا زور ختم ہوجائے گا اور اس قسم کے معاشرے میں جرم صرف کھوجنے پر ہی مل سکے گا۔ دنیا کے تمام ممالک نے اس وقت ترقی کی جب انھوں نے تمام فیصلوں کا اختیار اپنے عوام کو دے دیا اور انھیں با اختیار اور خوشحال بنادیا فرد واحد غلط فیصلہ کرسکتا ہے لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے۔

عوام سے زیادہ سمجھ دار کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کسی بھی قسم کی جنگ عوام کی مددکے بغیر نہیں جیتی جاسکتی۔ فتح اور شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں بلکہ ذہن میں ہوتا ہے جنگ ہتھیاروں سے نہیں جذبوں سے جیتی جاتی ہے تباہ شدہ قوم کی تعمیرکی جاسکتی ہے۔ مسمار شہروں کی تعمیر نو ہوسکتی ہے لیکن جب ایک قوم کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ جذبے کا تعلق ، خوشحالی اور اختیار سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔

آج پاکستان کے لوگ جن عذاب، مسائل سے دوچار ہیں جس ذلت اور بے چارگی کا سامنا کررہے ہیں یہ سب کے سب نتیجہ ہیں ان اقدامات، فیصلوں کا جوہم پچھلے 73 سالوں سے کرتے آرہے ہیں آج ہم مکمل تباہی کے دہانے پرکھڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں۔ ریاست کی اصل طاقت عوام کا، ہم نے بھرکس نکال دیا ہے، جتنا ان کو ذلیل وخوار کرسکتے ہیں، کر رہے ہیں لوگ تڑپ،بلک اور سسک رہے ہیں اورہم ان کی اس حالت پر قہقہے لگا رہے ہیں، ان کا مذاق اڑارہے ہیں۔

یہ سوچے سمجھے بغیرکہ جلی ہوئی آگ کی سمت کبھی ایک سی نہیں رہتی وہ کسی بھی وقت اپنی سمت بدل سکتی ہے۔ یاد رکھیں جگہیں ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں جگہیں کبھی مستقل نہیں ہوتی ہیں خدارا ہوش کے ناخن لو، لوگوں کو اس طرح ذلیل وخوار مت کرو ان کی بے بسی اور بے چارگی کا اس طرح مذاق مت اڑائو۔ ان کی زندگی میں اتنی بارودی سرنگیں مت نصب کروکہ کہیں ایسا نہ کہ وہ سب کی سب تم پر پھٹ پڑیں۔ انھیں بھی جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتناکہ تمہیں ہے۔ انھیں جیتے جی نہ مارو تمہاری کھودی گئی قبروں کے مردے بدل بھی سکتے ہیں۔

اس وقت سے ڈروکہ لوگ مجبورہوکر ہاتھوں میں مشعل اٹھائے تمہارے محلوں کی طرف دوڑ نہ پڑیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ انھیں خوشحال اور بااختیار بنادو۔ ان کے غصب شدہ حقوق انھیں لوٹا دو۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

1831 میں یعنی پہلے ریفارم بل کے پاس ہونے سے ذرا پہلے جیری بنیھتم نے جو انگلستان کا رہنے والا تھا اور نظام قانون سازی کا بہت بڑا عالم اور عملی سیاست کے میدان میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا مصلح تھا اس نے اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا ’’ خود آرام سے رہنے کی ترکیب یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی کو پرمسرت بنایاجائے دوسروں کی زندگی کو پر مسرت بنانے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے محبت ظاہرکی جائے اور ان سے محبت ظاہرکرنے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے فی الواقع محبت کی جائے۔‘‘

The post بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2U70F4P

Post a Comment Blogger

 
Top