ہمیں سعادت حسن منٹو کی ایک بات کافی قابل غور طلب معلوم ہوتی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ’اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ہی ناقابل برداشت ہے۔ میں ایسی تہذیب و تمدن اور سماج کو کیا بے لباس کروں، جس کے تن پر پہلے ہی کچھ نہیں! میں اِسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اس لیے کہ یہ میرا نہیں، درزیوں کا کام ہے۔‘ لیکن تب کیا ہوگا جب کرنے والے اپنا کام نہ کریں؟ کیا معاشرے میں خوش حالی، برابری اور امن و امان قائم رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ دراصل عورتوں کے حقوق کی بات، عورتوں کے حقوق کی جنگ اور عورتوں کے حقوق کی تحریک معاشرے کے ایک ایسے طبقے کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے کہ وہ اس حقیقت کی عکاسی نہیں کر سکتے جس حقیقت سے ہمارے تنگ نظر معاشرے میں رہنے والی عورتیں روز سامنا کرتی ہیں۔

8مارچ  پر عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ’’عورت مارچ‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس پر ناپسندیدگی کا بھی اظہار کرتا ہے۔ ساتھ ہی بہت سے سوال بھی پیدا ہو جاتے ہیں، جیساکہ ’’فیمنزم (تحریک نسواں) کا مطلب کیا ہے؟‘‘ کیا یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔۔۔؟ اور کیا اس سے بے حیائی پروان چڑھ رہی ہے؟ عورت کے حقوق کی فراہمی کے لیے تو یہی دلیل کافی ہونی چاہیے تھی کہ وہ بھی انسان ہیں اور جو ضروریات انسان کو میسر ہونی چاہئیں اور جو استثنا اور چھُوٹ مردوں کو حاصل ہیں وہ عورتوں کو بھی ہونی چاہئیں۔

یوں تو دنیا میں ’فیمنزم‘ کی تحریک عورتوں کو بنیادی حق دلانے کے لیے چلی، لیکن ایشیا تک آتے آتے شاید اس کے مطلب میں تبدیلیاں آتی گئیں اور آج اس تحریک کو ایک ایسی تحریک سمجھا جاتا ہے، جو معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں، جب کہ ’تحریک نسواں کے مطالبات صرف انصاف کے مطالبات ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں معاشرے کو مردوں کی بالادستی حاصل ہے۔ یہاں اکثر وہی قوانین اور اصول رائج ہیں، جو مردوں کے بتائے ہوئے ہیں۔ جب تک یہ اصول، رسمیں اور قوانین منصفانہ ہوں معاشرے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہر سال بچیوں کی ایک بڑی تعداد زیادتی کا شکار ہوتی ہے، رشتے سے انکار کی سزا تیزاب پھینکے جانے کی صورت میں ملتی ہے، کئی عورتیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ جب یہ تحریکیں پاکستان میں موجود ’طبقاتی امتیاز‘ کی نذر ہو جاتی ہیں، تبھی تو یہ سارے بنیادی مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں موجود لوگوں کو پھر تصویر کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔

دراصل جن عورتوں کو حقوق کی ضرورت ہے، ان کو سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور احتجاج کرنے کی بھی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اب ایسی صورت حال میں ہمارے معاشرے کی ’اَپر کلاس‘ (بالائی طبقے) پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان بے بس عورتوں کے حقوق کی بات کریں اور ان کی صحیح طریقے سے عکاسی کریں، کیوں کہ بلاشبہ معاشرہ باعزت اور باشعور عورت کے بغیر بہت خراب تصویر بناتا ہے، جہاں گویا زندگی کا وجود ہی نہیں پایا جاتا۔ اگر پاکستان کی ہر ایک عورت کو تعلیم کے حق سے اور شعور کے زیور سے آراستہ کیا جائے، تو دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ارفع کریم اور پائلٹ آفیسر مریم مختیار جیسی بیٹیاں قوم کا فخر سے سر اونچا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، کیوں کہ  ازل سے ہی آدم کو حوا کی ضرورت ہے۔

The post محکوم خاتون کو تو آواز اٹھانے کا حق بھی نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33npyNT

Post a Comment Blogger

 
Top