صرف دو ماہ پہلے چین،میں ’’کورونا وائرس‘‘ نامی  وبا پھیلی ۔ مستند اطلاعات کے مطابق، گزشتہ دو مہینوں کے دوران چین میں اس  وائرس نے اڑھائی ہزار سے زائد چینیوں کو ہلاک کر ڈالا ہے ۔ متاثر ہ افراد اُن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ رہی ہے ۔ اب تو یہ وائرس ساری دُنیا کے اعصاب اور حواس پر چھا گیا ہے ۔ ابتد میں اس وائرس کو معمولی خیال کیا گیا تھا لیکن اب تو عالمی ادارئہ صحت (WHO)بھی گہری تشویشات کا اظہار کرنے لگا ہے۔

اس وبا نے چین سے نکل کر دُنیا کے چار درجن سے زائد ممالک میں پنجے گاڑ لیے ہیں۔ کئی ممالک میں اسکول بند کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ چین اس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہا ہے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ ایک خلیجی عرب ملک میں حکم جاری کیا گیا ہے کہ شادی بیاہ اور ولیمے کی تقریبات میں مہمان صرف مصافحہ کریں ،معانقہ کرنے سے ’’پرہیز‘‘ کیا جائے ۔

یہ مہلک وائرس ایران بھی پہنچ کر 200سے زائد ایرانیوں کی زندگیاں نگل چکا ہے ۔ چین میں زیر تعلیم ہمارے کئی طلبا اور طالبات بھی واپس پاکستان نہیں لائے جا سکے ہیں ۔ ان کے والدین حکومت کے خلاف احتجاج تو کررہے ہیں لیکن ہنوز اُن کے واویلے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔

وائرس کے خوف سے سعودیہ نے عمرے کی پروازیں عارضی طور پر بند کر دی ہیں ۔صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے حج بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ایران سے متصل ہمارے صوبہ بلوچستان میں خاص توجہ دی جارہی ہے ۔ایران سے واپس آنے والے پاکستانی زائرین، حفاظتی خیال کے پیشِ نظر، کچھ دن قرنطینہ میں رکھے جائیں گے۔کورونا وائرس کے چند ایک مریضوں کی پاکستان میں بھی تشخیص سامنے آئی ہے ۔

وفاق کے پاس وزیر صحت ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے صحت ترجمان ، ظفر مرزا ، ہمیں تسلیاں تو دے رہے ہیں لیکن اصل صورتحال کیا ہے ،عوام نہیں جانتے ۔ چونکہ صحت کا محکمہ مرکزی حکومت کے ہاتھ ہی میں نہیں ہے ، اس لیے ہم مرزا صاحب کی محدودات کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ صحت کے محکمے کامل طور پر چاروں صوبوں کے پاس ہیں ، اس لیے اب مہلک کورونا وائرس کا دلیری سے مقابلہ کرنا صوبائی وزرائے اعلیٰ کا سخت امتحان ہے ۔ ابتدائی سطح پر ہی مگر ہماری صوبائی حکومتیں حفاظتی ماسک کی بلیک مارکیٹنگ پر قابو پانے میں جس طرح ناکام ہُوئی ہیں ، افسوسناک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ چونکہ کورونا وائرس سانس لینے ، کھانسنے اور چھینکنے سے ایک متاثرہ انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے ، اس لیے بچاؤ کی خاطر میڈیکل ماسک یا فیس ماسک کی مانگ خاصی بڑھ گئی ہے ۔ پہلے یہ ماسک ہم گردو غبار اور دھوئیں سے بچنے کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن جب سے پاکستان میں کورونا کا غلغلہ مچا ہے ، اس کے خریداروں کی تعداد میں یکدم بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ اِسی رجحان نے نفع اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے حوصلے بھی بلند کیے ہیں ۔

پاکستان کے ہر شہر میں فیس ماسک نایاب ہوگئے ہیں۔ہر لمحہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔وائرس کی بنیاد پر پیدا ہونے والی نازک صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذخیرہ اندوز عوام کا استحصال کرنے پر اُتر آئے ہیں۔روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ نے گزشتہ روز اِسی ضمن میں سٹی پیج پر تین کالمی ایک افسوسناک فوٹو شایع کی ہے ۔اِس کا کیپشن یوں ہے:’’سب رجسٹرار راولپنڈی، اقبال سنگھیڑا  چکلالہ اسکیم نے ماسک بنانے والی ایک فیکٹری پر چھاپہ مار کر 50ہزار ماسک تحویل میں لے لیے ہیں۔‘‘

فوٹو میں سب رجسٹرار بھی نظر آرہے ہیں اور سامنے کھلے کئی باکسز میں ہزاروں ماسک بھی ۔ کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا لالچ میں یہ ہزاروں ماسک ذخیرہ کیے گئے تھے ۔ نجانے اس طرح کتنے لاکھوں ماسک ملک بھر میں ذخیرہ کیے گئے ہوں گے ؟ چند دن پہلے تک ملک میں چینی اور آٹا ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف چھاپے مارے جا رہے تھے اور اب مہلک کوروانا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال ہونے والے ماسک کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں!!

جو ماسک چند دن پہلے پندرہ بیس روپے کا مل جایا کرتا تھا، اب 100روپے میں بھی بمشکل ملتا ہے ۔ بڑے بڑے تاجروں نے بے حسی اور بے لحاظی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیکل ماسک کا ذخیرہ کرلیا ہے ۔ مجھے خود میڈیکل اور میڈیسن کی کئی دکانیں پھرنے اور خجل خواری کے بعد ایک آدھا ماسک ہی مل سکا اور وہ بھی پانچ چھ گنا زیادہ قیمت پر ۔یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ حفاظتی ماسک بازاروں سے غائب ہی ہوگئے ہیں۔ میڈیسن کی ہول سیل مارکیٹوں میں بھی فیس ماسک دستیاب نہیں۔کئی دکانوں پر یہ بلیک میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ راولپنڈی میں 50 ماسک رکھنے والا وہ ڈبہ جو پہلے 100 روپے میں مل جایا کرتا تھا، اب 850 روپے کا فروخت ہونے لگا ہے ۔

موٹے کپڑے کے ماسک والا ڈبہ جو پہلے 200 روپے میں دستیاب تھا، اب 1200روپے کا ہوچکا ہے۔ خبر ہے کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں 160 روپے والے ماسک باکس کی قیمت 1800 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ہر کوئی کہتا سنائی دے رہاہے کہ اگر خدانخواستہ کورونا وائرس نے وطنِ عزیز میں بھی وبا کی شکل اختیار کرلی تو اسپتالوں تک میں ماسک کی قلت ہوجائے گی۔ ان کے بغیر کورونا وائرس سے کیسے نمٹیں گے؟یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ بازار میں جعلی ماسک بھی فروخت ہونے لگے ہیں۔ بددیانتی ،بے ایمانی اور شرمناک منافع خوری اپنی بھیانک شکل میں سامنے آرہی ہے ۔ یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود!!

عوام پہلے ہی حکومت کی پیدا کردہ ناقابلِ برداشت مہنگائی اور ہمہ دَم بڑھتی بے روزگاری سے تنگ ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے کمی کرکے حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے ۔اور ساتھ ہی اس ’’عظیم مہربانی‘‘ پر حکومت عوام کو احسان بھی جتلا رہی ہے ۔ اوپر سے کرونا وائرس کا عذاب تیزی سے پھیلنے کی خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔ انھی خدشات کی اساس پر ذخیرہ اندوز ماسک مہنگے داموں فروخت کرکے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے لگے ہیں ۔حکومت کہاں ہے ، کسی کو معلوم نہیں ۔ پہلے سے عذاب بنی عوامی زندگیوں کو مزید عذاب بنانے کی جسارت کی جارہی ہے اور حکومت ہے کہ حسبِ معمول اور حسبِ سابق گراں فروشوں کے سامنے بے بس ہے ۔

جیسا کہ مہنگے نرخوں میں چینی اور آٹا بیچنے والوں کے سامنے بے بس ہے ۔ حکمرانوں نے آٹا اور چینی کے مل مالکان میں سے اپنے ارب پتی دو قریبی اور معتمد دوستوں کو گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی فہرست سے خارج کر دیا تھا لیکن اب مہلک کورونا وائرس کے پھیلتے سایوں سے بچنے کی خاطرجس طرح عوام مہنگے ماسک خریدنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں،کیا اس معاملے میں بھی کسی کو دانستہ ڈھیل دی جارہی ہے؟

یس ماسک کے ظالم ذخیرہ اندوزوں سے فوری طور پر نمٹنے کے لیے سرکاری آہنی ہاتھ کب حرکت میں آئیں گے ؟کیا حکومت کے’’ آہنی ہاتھ‘‘ صرف عوام اور میڈیا کوکچلنے کے لیے رہ گئے ہیں؟ ابھی تو حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں 400فیصد اضافہ کرنے والوں کا بھی احتساب نہیں کیا ہے ۔شائد فیس ماسک غائب کرنے والوں سے بھی اِسی انداز میں صرفِ نظر کر دیا جائے ۔ عوام جائیں بھاڑ میں!!

The post مہلک وائرس ، مہنگے ماسک اور منافع خور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PGT2AO

Post a Comment Blogger

 
Top