اسلام آباد میں ایف ٹین مرکز کی ایک بیس منٹ (basement) میں میرا ٹیلرہے۔ جمعے کا دن تھا،کسی اور کام سے جا رہی تھی تو سوچا کہ چند دنوں سے گاڑی میں رکھے ہوئے، ٹیلر کو سلائی کے لیے رکھے ہوئے کپڑے بھی دے دوں گی۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے پاس جاؤ تو وہ دکان پر موجود نہیں ہوتا ، اس لیے میں گھر سے نکلتے ہوئے اسے کال کر کے چیک کر لیتی ہوں کہ وہ کب موجود ہو گا تا کہ خواہ مخواہ میں فالتو پھیرا نہ لگے۔ اس روز چونکہ گھر سے نیت کر کے نہیں نکلی تھی اور ایف ٹین کے راستے میں ارادہ کیا تھا تو میں اس بیس منٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے دعا کر رہی تھی کہ اللہ میاں، عبدالرحمن اپنی دکان پر موجود ہو، ورنہ وہاں تک آنے کی ساری محنت اور وقت اکارت جائے گا۔ خود کو اتنا معتبر تو نہیں سمجھتی لیکن میرا اللہ مجھے کبھی ایسی چھوٹی چھوٹی دعاؤں پر مایوس نہیں کرتا ۔

سیڑھیاں اترتے ہوئے میں ان سیڑھیوں کی ایک طرف لگی ہوئی ریلنگ اور دوسری طرف کی دیوار کو دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کس کا آسرا لے کر نیچے اتروں، ہاتھ میں بیگ بھی تھا اور پرس بھی۔ دونوں طرف کے حالات دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ کسی طرف سے بھی سہارا نہیں لیا جا سکتا تھا۔ عام حالات میں بھی مشکل ہوتا اور اب تو کورونا وائرس کے خوف سے بالکل بھی نہیں ۔ دکان تک جاتے ہوئے راہداری میں بھی مجھے بہت سی ایسی چیزیں نظر آ رہی تھیں کہ جو مٹی اور گرد سے اٹی ہوئی تھیں، میز، کرسیاں ، بنچ، کام کرنے والوں کے اڈے۔

’’ اگر مجھے معلوم ہوتا عبدالرحمن ، کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے تو میں دکان میں آپ کی موجودگی کے بجائے دعا کرتی کہ دنیا بھر سے کورونا وائرس کا خاتمہ ہوجائے! ‘‘ میںنے اسے کپڑے دئے۔ کام سمجھ کر اس نے پوچھا کہ اگر میرے پاس کچھ وقت ہو تو، ’’ جی؟ ‘‘

’’ آپ سے پوچھنا تھا کہ یہ کورونا واقعی میں کچھ ہے یا یہ بھی سب افواہیں ہیں؟ ‘‘ اس کے سوال پر میںنے حیرت سے اسے دیکھا، اس کی دکان میں دیوار پر نصب ٹیلی وژن کو دیکھا ، جو کہ ہر وقت آن ہو تا ہے اور اس پر ہمیشہ خبریں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔

’’ آپ خبریں نہیں سنتے ہوبیٹا؟‘‘ میںنے رسان سے کہا، ’’ کوئی ہمارے ملک کا مسئلہ تو نہیں ہے، دنیا بھر کے بارے میں بتا رہے ہیں، چین، اٹلی، یورپ کے کئی اور ممالک ، کینیڈا اور آج امریکا میں بھی مکمل ایمر جنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ آج ہمارے ملک میں بھی اعلی سطح کا اجلاس ہو رہا ہے اور ممکن ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے! ‘‘

’’ اچھا، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سچ ہے۔ مگر یہ ہے کیا اور ٹیلی وژن پر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ ‘‘ اس کا اگلا سوال تھا۔ وہ میرے ساتھ باتوں میں محو تھا اور اس کے عقب میں بیٹھے ہوئے، تین کاریگر اپنی اپنی انگلیوں سے کانوں اور ناکوں میں خلال کر رہے تھے۔ میں ایک دکان میں کھڑی تھی اور اس راہداری میں کم از کم آمنے سامنے بیس درزیوں کی ایسی ہی نوعیت کی دکانیں ہیں ۔

میں نے چشم تصور سے اس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا اور سوچا کہ یہاں اگر کسی ایک تک کورونا وائرس پہنچ جائے تو اسے ان سو پچاس لوگوں تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی… ہم عورتوں کو کتنی آسانی سے یہ وائرس لگ سکتا ہے، نہ صرف وہاں سے ہمارے سلے ہوئے کپڑوں بلکہ کام سمجھاتے ہوئے جو ہم ان کے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔’’ سنا ہے کہ ماسک نہیں مل رہے ہیں… لوگ کہاں سے ماسک خریدیں؟‘‘

اس نے اگلا سوال کیا۔ ’’ آپ تو خود اس کام میں ہو، اچھے کپڑے کے اپنے ماسک بنوا لیں آپ لوگ، ایک ایک کاریگر کو ایک سے زائد دے دیں، دھو کر دھوپ میں سکھا کر پھر استعمال کریں … لیکن ماسک سے بڑھ کر اہم ہے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور احتیاطی تدابیر!! ‘‘ میں نے اسے چند چیدہ چیدہ باتیں مختصرا بتائیں ۔ عبدالرحمن نسبتا لکھا پڑھا درزی ہے، میرے اور اپنے دیگر گاہکوں کے ساتھ Whatsapp پر رابطے میں رہتا ہے، ڈیزائن کی بات کریں تو  Pinterest کے ڈیزائن اس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ ہر وقت اس کی دکان پر ٹیلی وژن پر خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔

اس کے باوجود وہ اس بات پر شک میں تھا کہ کورونا وائرس واقعی میں کچھ ہے یا یہ امریکا کا چھوڑا ہوا شوشا۔ ان دکانوں کے تمام کاریگر، انھی دکانوں کے اوپری حصے میں، نصف کھلے ہوئی چھتوں پر بیٹھ کر ہی دن بھر کام کرتے ہیں ، رات دیر تک بھی کام کرتے ہیں اور جب تک استاد اجازت نہیں دیتا، کام کرتے رہتے اور پھر وہیں پڑ کر سو جاتے ہیں ۔ یہ درزیوں کی ایک مارکیٹ کی ایک چھوٹی سی بیسمنٹ کے اندر کا منظر ہے، سوچیں کہ ہمارے ملک میں کتنے شہر ہیں، کتنی مارکیٹیں ہیں، کتنے درزی ہیں اور کتنے لوگ اس وائرس کے رسک پر ہیں ۔

ان دکانوں پر بیرون ملک سے آنے والے لوگ بھی آتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں، جنھیں خود بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ اس وائرس کے کیرئیر ہیں ۔ ابھی تک تو ہم کورونا وائرس کو لطیفوں میں اڑا رہے تھے مگر اب ہمارے ہاں بھی حالات سنجیدہ رخ اختیار کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اعلی سطح کے اجلاس کے بعد، عملی کام شروع کر دیا گیا ہے مگر عام آدمی ابھی بھی اس وائرس کی علامات اور احتیاطی تدابیر سے لاعلم ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ جس ایمر جنسی کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام ٹیلی وژن چینلز لوگوں کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتائیں، جس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جائے کہ مصافحے اور معانقے سے اجتناب کریں ۔ پانی پیتے رہیں تا کہ حلق خشک نہ ہو۔ اپنے ہاتھوں کو بار بار صابن استعمال کر کے دھوئیں ، اپنے ہاتھوں کو چہرے سے دور رکھیں ، اگر چہر ے پر خارش یا کھجلی ہو تو پانی سے منہ دھو لیں مگر ہاتھوں سے نہ کھجائیں۔

اگر کہیں باہر سے آئے ہیں تو ہاتھ دھونے سے پہلے، گھر میں کسی چیزکو مت چھوئیں ۔ بلا ضرورت اجتماعات اور مصروف کاروباری علاقوں میں جانے سے گریز کریں ۔ اگر گھر میں کسی کو بھی فلو یا کھانسی ہے تو وہ سب کے درمیان نہ بیٹھے اور نہ ہی محفوظ فاصلے کے بغیر، کھانسی اور چھینکوں سے دوسروں کو متاثر کرے ۔ اگر آپ میں سے کسی کو بھی اپنے یا کسی دوسرے کے بارے میں شک ہوکہ وہ ’’شکار‘‘ ہو سکتا ہے تو براہ کرم اسے مت چھپائیں، فورا ڈاکٹر کو دکھائیں، ہیلپ لائن پر رابطہ کریں، کورونا کا ٹسٹ کروائیں۔

اللہ ہی رحیم اور رحمن ہے، اس کی مددکے سوا ہمارے ملک میں اس آفت کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ آیت کریمہ کا ورد کریں، نمازوں کی پابندی کے ساتھ اس سے رحمت کی دعا کرتے رہیں ۔ Panic سے گریز کریں ، اس بیماری کا مقابلہ مل کر ہمت اور فہم کے ساتھ کرنا ہو گا۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور اس مشکل میں ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

The post یا ارحم الرحمین!! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QePnu0

Post a Comment Blogger

 
Top