دوپہرکاکھانا کھا کرہم تھوڑی جھپکی لگانے کے لیے چارپائی پر درازہوئے تھے کہ باہرگلی میں سے ہنگامے اورشورشرابے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ پہلے ہم نے کوئی خاص توجہ نہیں دی کہ اس طرح اکثر ہوتاہے ایسے گاؤں محلوں میں۔لیکن اس ہنگامے کی آوازوں میں نئی بات تھی کہ گرجنے برسنے والی آوازتو گالی دے رہی تھی لیکن جواب میں کوئی بچہ یاعورت نہیں بلکہ کوئی مرد پوری مردانہ آوازمیں رورہاتھا اورچیخ رہاتھا، یہ ایک نئی بات تھی اس لیے ہم نے اٹھ کردروازہ کھولا اور جھانک کردیکھا تو محلے کا ایک سرکش، بدزبان اورہتھ چھٹ شخص گلی گلی پھرنے والے ایک کباڑی کو لاتیں مار رہاتھا جو زمین پر پڑا ہاتھ جوڑ جوڑ کرمعافی مانگ رہاتھا اورتوبہ توبہ کررہاتھا۔

محلے کا آدمی تو اسے الوداعی لات مار کراوردوچارموٹی موٹی گالیاںدے کراپنے گھر کو چلا گیا لیکن ادھیڑ عمر کاکباڑی بدستور چلچلاتی دھوپ اورتپتی زمین پر آڑاترچھا پڑاہواروہا تھا،خاص بات یہ تھی کہ اس کے پاس جوکھیرکی پرات ہوتی تھی وہ بھی الٹی ہوئی تھی اورکھیر ادھر ادھر بکھری ہوئی ۔۔یہ ایک عجیب وغریب قسم کی کھیر ہوتی ہے جو کباڑی لوگ پرات میں لیے پھرتے ہیں اوراس کے بدلے بچوں سے تھوڑا بہت کباڑلیتے ہیں۔

ہم کو اس پر ترس آیا تو قریب جاکرماجراپوچھا، وہ قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلانے لگا کہ اس نے کبھی بچوں سے اپنے گھروں میں چوری نہیں کرائی اورنہ کام کی کوئی چیزلانے کے لیے کہا ہے لیکن یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم بچوں کو لالچ دے کراپنے گھروں میں چوری کراتے ہیں اورصحیح وسالم چیزیں بھی اٹھواکرلانے پر اکساتے ہیں۔ وہ باربارقسمیں کھا کراس کی تردید کر رہاتھا،ساتھ یہ گریہ بھی کررہاتھا کہ اب میں ٹھیکیدارکو سائیکل کاکرایہ اوراس کھیر کا معاوضہ کہاں سے دوں گا، ہم نے اس سے پوچھاکھانا کھایاہے ۔بولا ، ہم صرف شام کو ایک وقت کھاتے ہیں ،ہم نے اسے تسلی دیتے ہوئے اٹھایا،سامان سمیٹنے میں اس کی مدد کی ،کچھ بچے بھی مدد کرنے لگے۔اوراسے لاکربیٹھک میں بٹھایا، پہلے پانی پلایا اورپھر گھروالوں کو کھاناتیارکرنے کو کہا۔وہ کچھ سنھبل گیا،کھانا کھاتے ہوئے کچھ اورپرسکون ہوا تو ہم نے اپنی تفتیش کابھی آغازکیا۔

وہ پنجاب کے کسی دوردراز شاید سرائیکی وسیب کا تھا یہاں کباڑ کا کام کرتاتھا، ان کا ایک ٹھیکیدار ہوتاتھا جو ان کو سائیکل کرائے پر اورکھیرقیمتاً دے کرکام پر لگاتاتھا اورشام کو کباڑ خرید کرحساب کتاب کرتاتھا جس میں ان بچاروں کو کچھ دیہاڑی مل جاتی تھی۔وہ کھیر نما چیز جو وہ سمجھتے تھے اورٹھیکیدار بڑے پیمانے پر پکواکر ان کو تقسیم کرتاتھا، صرف میدے کی بنی ہوئی میٹھی سی چیزہوتی تھی جس میں چاول یادودھ کا شائبہ تک نہیں ہوتاتھا البتہ پرات میں رنگین لکیریں ہوتی تھیں۔

اس سے پتہ چلا کہ وطن میں اس کے بوڑھے ماںباپ اورتین بچے ہیں اورپانچ ماہ میں جاکران کو کچھ نان ونفقہ پہنچاتاتھا، خود بیمارتھا لیکن دوا دارو کے بجائے دم تعویذ سے اپنا علاج کرتاتھا۔اس کادکھ دیکھ کر ہم نے اس کانقصان بھرنا چاہاتو اس نے صاف انکارکرتے ہوئے کہا کہ اگراسے بھیک مانگنا آتاتو اتنے شہروںجن سے وہ گزر کرآیاتھا اس کے بڑے مواقعے تھے چنانچہ ہم نے نقصان بھرنے کا متبادل تلاش کرتے ہوئے کچھ ردی، لوہے کا ٹوٹا پھوٹا سامان، کچھ پلاسٹک اورسلورکے برتن نکال کردیے کہ اسے بیچ کر جو کچھ ملے اس میں سے اپناخسارہ نکال کرجو رقم بچے وہ لاکردے دینا۔

وہ بڑا خوش ہوا،کیوں کہ سامان میں اچھے خاصے سالم برتن اورلوہے کے اوزاربھی تھے۔ایک فلم جولی ایل ایل بی میں ایک امیرزادہ رات کو پچیس ہزار روپے کی بوتل چڑھا کراپنی چھ سلنڈر لگژری گاڑی سے فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے پانچ آدمیوں کو کچل ڈالتاہے، مقدمہ چلتاہے تو امیرزادے کاباپ جو ایک بہت بڑا بزنس ٹائیکون ہے۔ مقدمے کی پیروی کے لیے شہرکا سب سے ٹاپ کلاس اورمنہگا ترین وکیل کرلیتاہے ،وکیل جس سے عدالت بھی دبتی ہے ،دلائل دیتے ہوئے کہتاہے کہ فٹ پاتھ سونے کے لیے نہیں بنے ہوتے ہیں ۔اورسوال اب بھی جواب کا منتظرہے کہ کون ہیں یہ گندے غلیظ اوربدصورت لوگ؟ اورکہاں سے آتے ہیںجوہمارے خوب صورت معاشرے کو بلکہ ریاست مدینہ کو گندہ کرتے ہیں۔

ذرا پتہ لگاناچاہیے کہ کہیں یہ دشمنوں کی کوئی سازش تونہیں جوبھیک مانگتے ہیں وہ تو اپنے اصلی لوگ ہیں جو اپنی بہترین ریاست کی بہترین ’’پیروی‘‘ کرتے ہیں لیکن جو بھیک بھی نہیں مانگ سکتے جن کے حصے کی زکواۃ اورچندے بھی ریاست کی بہتری اورخوبصورتی کے لیے استعمال ہوتی ہے،ان کے حصے کا انکم سپورٹ طرح طرح کے کارڈ،امدادی رقوم،مفت کے گھر اورملازمتیں بھی دوسرے ہضم کرتے ہیں، یہ طرح طرح کے غلیظ کام کرکے ریاست کی خوبصورتی کو ’’داغ دار‘‘ کرتے ہیں ،پتہ لگاناچاہیے کہ یہ لوگ کون ہیں، کہاں سے آتے ہیں اورکیوں اتنے گندے اورغلیظ کام کرکے ریاست مدینہ کے پاک پاکیزہ دامن پر داغ لگاتے ہیں ،یہ پتہ لگانابہت ضروری ہے ۔کوئی لگائے گا؟

سبزہ وگل کہاں سے آتے ہیں

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟

The post کون ہیں یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32KwLHn

Post a Comment Blogger

 
Top