’’ سب کچھ ٹھیک ہے، خطرے کی کوئی بات نہیں، معیشت ٹیک آف کرنے والی ہے، کوئی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔‘‘ یہ وہ مکالمے اور جملے ہیں جو ہر پاکستانی حکومت کے سربراہ اور ان کے وزرا تواتر سے بولتے ہیں۔ لوگ 56 سال سے یہی جملے سنتے چلے آرہے ہیں لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مسلسل خراب ہوتے گئے۔
مشرقی پاکستان میں پہلا تنازعہ اردو بنگلہ کا اٹھا ، بعد از خرابئ بسیار وہ حل ہوا تو اور مسائل اٹھ کھڑے ہوئے، وہاں کے عوام نے شکایت کی کہ انھیں جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ بنگال میں قوم پرست تحریک مقبول ہونے لگی تو کہا گیا کہ مٹھی بھر افراد مشرقی پاکستان کے عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہے حالات بالکل معمول پر ہیں۔
معاملات مزید پیچیدہ ہوئے۔ تب بھی لوگوں سے یہی کہا گیا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان محفوظ ہے، جو لوگ قوم پرستی کی باتیں کر رہے ہیں وہ ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ انھیں عوام میں قطعاً مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ یاد رہے کہ شیخ مجیب الرحمن سمیت عوامی لیگ کی زیادہ تر قیادت ماضی میں مسلم لیگ میں شامل تھی اور تحریک پاکستان میں اس نے سرگرم کردار ادا کیا تھا لیکن اب یہی لوگ ہندوستان کے ایجنٹ کہے جا رہے تھے۔ ملک کے مغربی حصے میں ون یونٹ قائم کیا گیا۔ صوبوں کے وجود کو ختم کر دیا گیا اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کا پیرٹی یا برابری کے فارمولے کے ذریعے کام تمام کر دیا گیا۔ یہ اقدامات قرارداد پاکستان کی روح کے سراسر منافی تھے۔
مشرقی پاکستان اور ملک کے مغربی بازو کے چھوٹے صوبوں میں ان اقدامات کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں نوجوانوں کے علاوہ وہ بزرگ سیاستدان بھی شامل تھے جنھوں نے قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ تقسیم سے پہلے یہ سندھ اسمبلی تھی جس میں پہلی مرتبہ پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی گئی تھی۔ صوبہ سندھ نے پاکستان کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لیکن ون یونٹ کے ذریعے اس صوبے کے وجود کو ہی ختم کردیا گیا۔
یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن کہا ہمیشہ یہی گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ 1954 اور 1956 کے آئین کو ناکام بنایا گیا۔ عام انتخابات سے بچنے کے لیے جنرل ایوب خان نے 1958 میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اس اقدام کے خلاف احتجاج ہوا لیکن احتجاج کرنے والوں کو پاکستان کی سالمیت اور نظریہ پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا۔ اختلاف اور احتجاج کی ہر آواز کو طاقت سے کچلا گیا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کے پُر زور احتجاج کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ مغربی بازو کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ مشرقی پاکستان میں ’’ دو کروڑ ہندو‘‘ رہتے ہیں، یہ سب ان کی سازش کی وجہ سے ہورہا ہے۔
ون یونٹ کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی نے تحریک چلائی۔ کہا گیا کہ جو سیاسی قوتیں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلارہی ہیں وہ پاکستان کو تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ بلوچستان کے سردار نوروز خان کو قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے بلایا گیا اور پھر ان بیٹوں کو سکھر جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ حالات بتدریج خطرناک نہج پر آگے بڑھتے رہے۔ لیکن عوام کو بار بار یہ باور کرایا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور خطرے کی کوئی بات نہیں۔ ہم آہنی ہاتھوں سے ملک دشمنوں سے نمٹ لیں گے۔
محترمہ فاطمہ جناح نے جب محسوس کیا کہ ایوب خان کی فوجی آمریت ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بنتی جا رہی ہے تو انھوں نے گوشہ نشینی کی زندگی ترک کرتے ہوئے میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کیا۔ مشرقی اور مغربی بازو کے عوام ان کی قیادت میں متحد ہوگئے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر نواب زادہ نصراللہ خان اور دیگر تمام قوم پرست اور پاکستان نواز سیاسی گروہوں نے ان کی غیر مشروط حمایت کی۔ ان سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں نے ملک کو بچانے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے محترمہ فاطمہ کی قیادت میں تحریک شروع کی۔
پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کی حمایت کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخابات میں ہرایا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کو جعلی شکست دے کر پاکستان کی سالمیت پر کاری ضرب لگانے والوں نے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ محترمہ فاطمہ جناح مفاد پرست اور ملک دشمن سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ اس موقع پر بھی جنرل ایوب خان اور ان کے وزراء نے عوام سے یہی کہا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کا نتیجہ 1970 کے بحران اور 1971 کی جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ وہ مشرقی بنگال جس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ایک الگ ملک بن گیا۔ اتنے بڑے سانحے کو نہایت بے رحمی سے نظرانداز کر دیا گیا۔ آج بھی ملک کے دو لخت ہونے کی تاریخ ہر سال آتی ہے اور آکر خاموشی سے گزر جاتی ہے۔ اس قومی سانحے کے ذمے دار قومی اعزاز سے دفن ہوئے ہیں۔ نہ کسی کا محاسبہ ہوا اور نہ کوئی ذمے دار قرار پایا۔ باقی ماندہ یعنی موجودہ پاکستان میں ماضی کا کھیل ایک بار پھر دہرایا جارہا ہے۔ 1973 کا آئین بنا۔ چار برسوں میں منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
ملک پر ایک مرتبہ پھر آمریت مسلط ہوئی۔ جن لوگوں نے احتجاج کیا انھیں نظر بند کیا گیا۔ سیکڑوں سیاسی کارکنوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔ سیاسی کارکن پھانسی چڑھے۔ کچھ دوران حراست ہلاک ہوئے۔ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکا کو فوجی آمرکی ضرورت پڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے امریکا کو اپنی خدمات پیش کر دیں جو اس نے بخوشی قبول کرلیں اور یوں جنرل ضیاء نے پاکستان کو اس سامراجی طاقت کی فرنٹ لائن ریاست بنایا۔ افغانستان میں امریکا کی جنگ پاکستان نے لڑی۔ معاوضے میں جنرل ضیاء الحق نے امریکا سے صرف اپنے اقتدارکی ضمانت طلب کی، پاکستان کے لیے کچھ نہیں لیا۔
امریکا کی حمایت سے جنرل ضیاء نے جمہوری طاقتوں کو کچلا ، انھیں ملک دشمن ، بدعنوان اور ملک کی سالمیت کا مخالف قرار دیا۔ پاکستان ڈرگ اور کلاشنکوف کلچر اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا لیکن لوگوں کو یہی مژدہ سنایا گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کی معیشت ٹیک آف کررہی ہے۔ آیندہ چند برسوں میں ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہوگا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دو ، دو بار اقتدار میں آئیں۔ انھیں بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ 58(2)B کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف کی حکومتوں کو قبل از وقت ختم کیا گیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو پھر فوجی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ اس بار بھی وہی پرانا راگ الاپا گیا کہ سیاستدان نا اہل اور بدعنوان ہیں۔ 1973کا آئین درست نہیں۔ شرم ناک جمہوریت کی جگہ حقیقی جمہوریت لانی ہے تاکہ ملک اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کرسکے۔
جمہوری اور سیاسی قوتیں بار بار وہی بات دہرا رہی ہیں جو 50 کی دہائی سے کہی جاتی رہی ہیں کہ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے۔ 1973 کا متفقہ آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام ہی ملک کی سلامتی کی واحد ضمانت ہے لیکن آج بھی وہی جواب دیا جارہا ہے جو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست دان نااہل ہیں اورپارلیمنٹ کی خود مختاری یا عوام کی حاکمیت کے مطالبات وہ عناصر کررہے ہیں جو اقتدار میں آکر دوبارہ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔
کیسا عجب المیہ ہے کہ ہم، ایک بار پھر امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ ہیں۔ معیشت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ پڑوسی ملکوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ملک میں سیاسی محاذ آرائی بڑھ رہی ہے۔ وفاق کی چھوٹی اکائیوں میں بدگمانیاں پیدا ہورہی ہیں۔ اس کے بعد بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔ معیشت ٹیک آف کرنے والی ہے اور کوئی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
ملک کے حالات کا مذکورہ بالا تجزیہ آج سے 17 سال قبل اس وقت کیا گیا تھا جب ریاست پر جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی اور نتیجہ یہ نکلا تھا کہ 56 سال گزرنے کے بعد بھی ہم آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اس وقت کے بعد سے اب تک چند واقعات ضرور رونما ہوئے ہیں لیکن کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف جاچکے، بے نظیر بھٹو کی پی پی پی اور نواز شریف کی پی ایم ایل کو تیسری بار اقتدار میں لایا گیا لیکن بعد ازاں ان کے ساتھ جوکچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔
کیا آج کے حالات دیکھ کر آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اس دوران ہم پر محض وقت گزرا ہے لیکن نہ حالات بدلے ہیں اور نہ ہی سیاسی و معاشی ارتقاء ہوا ہے۔ آج آزادی کے 73 سال بعد بھی لوگوں سے یہی کہا جارہا ہے کہ’’سب کچھ ٹھیک ہے، خطرے کی کوئی بات نہیں، معیشت ٹیک آف کرنے والی ہے اور کوئی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ تاریخ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ جب تک حالات واقعی ٹھیک نہیں ہوں گے ہمیں یہ جملے تکرار سے سننے کو ملتے رہیں گے۔
The post یہ جملے ہم کب تک سنیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TdWDsi
Post a Comment Blogger Facebook