امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران کشمیر کو ایک کانٹے سے تشبیہ دی اور ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کر دی۔ صدر ٹرمپ نے درحقیقت دہلی کو فسادات کی آگ میں جلتے ہوئے دیکھا جہاں 13 افراد ہلاک ہوئے، مسلمانوں کی املاک نذرآتش کی گئیں، مسجد شہید اور انجام کار دہلی میں کرفیو نافذ کردیا گیا، یہ ٹرمپ کے دورہ بھارت کا ڈراپ سین تھا۔

اس کی نیٹ پر تصویریں دیکھیں، تاہم بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان بہت اچھے انسان ہیں، میرے وزیر اعظم عمران خان اور نریندرمودی دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ میں کشمیر پر مصالحت کے لیے تیارہوں، پاکستان کشمیر کے معاملے پر کام کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پرکوئی دو آرا نہیں کہ دہشت گردی ایک مسئلہ ہے لیکن پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے ، وزیراعظم نریندرمودی سے پاکستان کے بارے میں بہت گفتگو ہوئی ہے ، امریکا اور بھارت دونوں اپنے شہریوں کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی سے بچانے کے لیے پر عزم ہیں، اس سلسلے میں امریکا پاکستان کے ساتھ نتیجہ خیزکام کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی سیاسی حالات ، امریکا بھارت دفاعی ، سماجی تجارتی تعلقات پر اظہار خیال کیا لیکن اگر ان کی بدن بولی، مافی الضمیر اور خطے کی دہکتی ہوئی صورتحال جس میں کشمیر پر ان کی واضح پالیسی ایک سپر پاورکی شرح صدرکے ساتھ نمایاں طور پر دنیا میں سنی جانی چاہیے تھی، نہیں سنائی دی، عالمی میڈیا کا تاثر یہ تھا کہ ٹرمپ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں، وہ کسی بھی مرحلہ میں کچھ بھی بول سکتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کے مصاحبین پر مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی دل گرفتہ اور انسانیت سوز صورتحال ڈھکی چھپی تو نہیں ہے۔

کشمیری طویل عرصہ سے محصور ہیں، ان پر عرصہ حیات تنگ ہے، ٹرمپ اتنے مجبور اور بھارتی مفادات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تو نہ تھے کہ کم ازکم کرفیو ہٹانے کی بات تو وہ مودی سے کرسکتے تھے۔ ثالثی کی تکرار سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ٹرمپ کو اپنا کارڈ استعمال کرنا ہو گا، وہاں بھی مودی کی ناک بیچ میںآئے گی، اگر انھیں افغان امن سے دلچسپی ہے اور وہ اس میں سنجیدہ ہیں تو انھیں افغان عمل کے راستے میں کشمیر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورہ بھارت کی تیاریوں کا غلغلہ ضرور تھا اس میں سنجیدہ بریک تھرو نہیں ہوسکا ، جو بات وہ احمد آباد میں نہیں کہہ سکے وہ دہلی کے اٹھتے ہوئے شعلوں میں تو آسانی سے کہہ سکتے تھے، لیکن انھوں نے متنازع قانون شہریت پر بھی پہلو تہی کی، حالانکہ بھارت کے موقر اخبار ’’دی ہندو‘‘ کا ادارتی صفحے پر کہنا تھا کہ دہلی پولیس کی نا اہلی اورناقص کارکردگی مرکزی حکومت کی طرف سے فسادات کی شہ اور خاموش رضامندی بی جے پی کی موبیلائزیشن مہم سے جڑی ہوئی ہے۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارتی وزیراعظم پورے دورے میں زبردست دباؤ میں نظر آئے، ٹرمپ کی پریس کانفرنس ون مین پریس کانفرنس تھی، وہ رننگ کمنٹری تھی، بادی النظر میں ٹرمپ خالی الذہن ہوکر بھارت آئے۔

مودی نواز بھارتی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت سے دوطرفہ اسٹرٹیجک تعلقات میں مزید بہتری آئیگی ، میڈیا بھارت کی طرف سے 3 ارب ڈالرکا امریکی اسلحہ اور دیگر دفاعی ہتھیاروں کی خریدنے میں دلچسپی کے معاملات تک محدود رہا، چنانچہ خطے کے جن ممالک کو امریکی صدرسے کسی بڑے اعلامیہ یا فیصلے کی توقع تھی وہ مودی کی چمتکاری نے پوری نہیں ہونے دی۔ پاکستان کو ثالثی کی پھر سے پیشکش کے لارے لپے سے بلند ہوکر کشمیر کے زمینی حقائق پر نظر ڈالنا ہوگی۔ ٹرمپ نے دورہ بھارت میں بلاشبہ ’’باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘‘ کی دھن پر شاندار اداکاری کی۔

جب ٹرمپ سے دہلی میں پرتشدد مظاہروں کے بارے میں سوال کیا گیا توان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس معاملے پر وزیراعظم مودی سے بات کی ہے، متنازع شہریت قانون کا معاملہ بھارت پر چھوڑتا ہوں۔ میں نے وزیراعظم مودی کے ساتھ مذہبی آزادی کا معاملہ اٹھایا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔ اقلیتوں کے مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا ہے تاہم تشدد سے کیسے نمٹنا ہے یہ بھارت پر منحصر ہے۔

میڈیا بریفنگ کے دوران بھارتی صحافی کی طرف سے امریکی صدرکو پاکستان مخالف گفتگو پر اکسانے کی کوشش کی گئی تاہم صدر ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف شروع کردی جس پر بھارتی صحافی لاجواب ہوگیا۔ دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران دونوں ملکوں میں تین ارب ڈالر کے اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ طے پاگیا، امریکا بھارت کو میزائل ٹیکنالوجی، اپاچی، ایم ایچ 60رومیو ہیلی کاپٹراور دیگر جنگی آلات فروخت کریگا۔ البتہ دونوں ملکوں میں تجارتی معاہدے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ انڈیا اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے پر پوچھے گئے سوال پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ دنیا بھر کے مقابلے میں انڈیا درآمدات پر سب سے زیادہ محصولات وصول کرتا جس کی شرح 45 فیصد تک ہے۔

امریکا کے ساتھ کاروبار میں منصفانہ سلوک ہونا چاہیے، ہم سے بے حساب محصولات لیے جاتے ہیں۔ انڈیا کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ہمیں 30 ارب ڈالرکا تجارتی خسارہ قبول نہیں۔ تاہم انھوں نے کہا ہماری ٹیموں نے ایک جامع تجارتی معاہدے پر زبردست پیشرفت کی ہے، دونوں ملکوں میں منصفانہ و منافع بخش معاشی تعلقات استوار کیے جائیں گے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال کے اختتام تک بھارت کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدہ طے پا جائے گا۔دونوں ملکوں نے انسداد دہشت گردی،توانائی تعاون اور اسٹریٹجک تعاون کے تین ایم اویوز پر بھی دستخط کیے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف سفارتی کامیابی ہے۔ مودی پاکستان مخالف بیان دلوانے میں ناکام رہا، یہ درست ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی تعریف پر بھارتی میڈیا آگ بگولا ہوگیا۔ امریکا کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قراردیا ہے، تاہم صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کا خطے کی صورتحال کے تناظر میں کوئی منطقی اور نتیجہ خیز بیانیہ سامنے نہیں آسکا، بھارت کے اخبار’’دی ہندو‘‘ نے ٹرمپ کے دورہ بھارت کو ایک کارٹون میں ظاہر کیاگیا جس میں ٹرمپ کو عمران خان اور مودی کے ساتھ چار ہاتھوں سے ڈانڈیا ڈانس کرتے دکھایا گیا ۔

دوسری جانب سیاسی مبصرین نے ٹرمپ کی طرف سے کشمیر کو کانٹا قراردینے کے سیاسی استعارے کی معنویت پر بھی حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سیاسی سیاق وسباق میں کشمیر ہماری شہ رگ ہے، شہ رگ کبھی جسم وجاں سے جدا نہیں ہوسکتی جب کہ کانٹا حلق میں بھی پھنس جائے تو نکالا جاسکتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کے اس استعارے کے ان کی ثالثی کی خواہش کے آئینہ میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ٹرمپ کا دورہ  بھارت ’’گریٹر بارگیننگ‘‘ ہے تو حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ دہلی کی ہولناک خانہ جنگی اور کشمیریوں کے لہو رنگ اور درد ناک محاصرے سے چشم پوشی انکل سام کی کتنی بڑی سنگدلی ہے۔ غالب  نے کہا تھا،

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز

اے ترا ظلم سر بہ سر انداز

The post ٹرمپ کے دورہ بھارت کا ڈراپ سین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2T4ukMw

Post a Comment Blogger

 
Top