کرن تھاپر بھارت کے معروف صحافی ہیں۔ مشہور اینکر پرسن بھی ہیں۔ 15 فروری2020 کو ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں اُن کا ایک مفصل آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔ انھوں نے اس مضمون میں بھارتی اور بنگلہ دیشی معیشت کا تقابلی جائزہ لیتے ہُوئے یوں لکھا ہے: ’’مجھے حیرانی ہے کہ امریکی دانشور، ہنری کسنجر، نے کس بنیاد پر 70کے عشرے میں بنگلہ دیش پر طنز کرتے ہُوئے اسے An international basket case لکھا تھا؟ بنگلہ دیش نے اقتصادی میدانوں میں جس شاندار انداز میں خود کو آگے بڑھایا ہے، یہ دیکھ کر بزرگ ہنری کسنجر یقیناً اپنے اندازوں پر کفِ افسوس ملتے ہوں گے ۔‘‘ کرن تھاپر مزید لکھتے ہیں: ’’بنگلہ دیش جس رفتار سے آج ترقی کر رہا ہے، بھارت اس بارے خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔
بنگلہ دیش آج جس شرح سے آگے بڑھ رہا ہے، بھارت کو یہ مقام حاصل کرنے کے لیے تین سال مزید لگیں گے۔ آج لندن کی ہائی اسٹریٹس اور نیویارک کی مین ہیٹن اسٹریٹس پر بنگلہ دیش ساختہ فیشن ایبل کپڑے فروخت ہو رہے ہیں جب کہ ایسے کپڑے بنانے کا خواب لدھیانہ اور تری پورہ میں دیکھا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسے میں بنگلہ دیشی وزیر خارجہ، اے کے عبدالمومن، نے غلط نہیں کہا ہے کہ بہت سے بھارتی معاشی خوشحالی کے لیے غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش میں داخل ہو رہے ہیں ۔‘‘ کیا ایک بھارتی دانشور کی طرف سے بنگلہ دیشی معیشت کو یہ ایک غیر معمولی خراجِ تحسین نہیں ہے؟
سابقہ مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش وہ سرزمین ہے جہاں مسلم لیگ اور پاکستان کی بنیادیں رکھی گئیں ۔ ہم اس سرزمین سے بیگانہ اور دُور کیسے رہ سکتے ہیں؟ بنگلہ دیش بنا تو کہا یہی گیا تھا کہ یہ زندہ رہے گا نہ اپنے پاؤں پر کبھی کھڑا ہو سکے گا۔ بنگلہ دیش نے مگر نہایت مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہُوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر دکھا دیا ہے۔ وہاں بھی مارشل لا آئے، انتقامی سیاست نے رواج پایا، سیاستدان قتل، جلا وطن اور قید کیے گئے، دہشت گردیاں ہُوئیں، کرپشن بڑھی لیکن آخر کار بنگلہ دیش سنبھل گیا۔ کئی وجوہ ہیں کہ بنگلہ دیش سے پاکستان کی دوستی اور قربت کا سفرآگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
پاکستان نے پچھلے پانچ عشروں کے دوران بنگلہ دیش سے دوستی اور تعاون کی کوششیں تو بہت کی ہیں لیکن بنگلہ دیش کی بے رُخی میں کمی کم کم آ سکی ہے۔ ماننا پڑے گا کہ بھارت، بنگلہ دیش کے اعصاب اور ذہن پر چھایا ہُوا ہے۔ شائد یہی نفسیاتی احساس بنگلہ دیش اور پاکستان کی دوستی کی راہ میں حائل ہے۔
بنگلہ دیشی وزیر اعظم، محترمہ حسینہ واجد، بھارتی قیادت کے ہمیشہ نزدیک رہی ہیں۔ حسینہ واجد نے اپنے ملک میں اپنے خاص سیاسی مخالفین کے ساتھ جو نامناسب سلوک کیا ہے، اس نے بھی پاکستان کو ناراض کیا ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جنھوں نے متحدہ پاکستان کی جنگ لڑی مگر ہار گئے لیکن قیامِ بنگلہ دیش کے بعد بھی مقامی شہری ہونے کے ناتے بنگلہ دیش ہی میں مقیم رہے۔ جن لوگوں کو حسینہ واجد کی حکومت میں پھانسیاں دی گئیں، پاکستان نے اس پر اپنا ملفوف ردِعمل دیا۔
بنگلہ دیش اس پر بھی ناراض ہُوا، اور پاکستان کی ناراضیوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ ہمارے داخلی معاملات ہیں، مداخلت نہ کی جائے۔ اس اسلوب کے باوصف ہمیں بنگلہ دیش کی طرف، وسعتِ قلبی کے ساتھ، دستِ محبت و اخوت بڑھاتے رہنا چاہیے۔ ناخن بھی بھلا گوشت سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہمارے میڈیا کو، خصوصاً پی ٹی وی کو، بنگلہ دیشی عوام تک پاکستان کی محبت کا پیغام مسلسل پہنچاتے رہنا چاہیے۔ افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ ہمارے میڈیا میں بنگلہ دیش کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ دونوں مسلمان برادر ممالک میں اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرامز بھی تقریباً زیرو ہیں۔
شیخ حسینہ واجد صاحبہ، جو شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں، تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہُوئیں تو کہا گیا کہ انھوں نے اپوزیشن کو طاقت کے بَل پر کچل کر یہ بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ماننا پڑے گا کہ حسینہ واجد کے دَورِ حکومت میں بنگلہ دیش نے معاشی اعتبار سے زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے ثمرات سے بنگلہ دیشی عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک ماہرِ معیشت ( پروفیسر محمد یونس) کو اقتصادیات کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ حسینہ واجد کی اقتصادی پالیسیوں نے بنگلہ دیش کو جو پھل دیا ہے، شائد یہ پاکستان کے لیے بھی ایک درس ہے۔
آج بنگلہ دیش معاشی میدانوں میں پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ خصوصاً ریڈی میڈ ملبوسات تیار کرنے میں وہ عالمی طور پر قائد بن چکا ہے۔ اب اس میدان میں بنگلہ دیش سے آگے صرف چین ہی رہ گیا ہے۔ عالمی معاشی اشارے بتا رہے ہیں کہ اگر حالات اِسی نہج پر چلتے رہے تو بہت جلد بنگلہ دیش ملبوسات کی تیاری کے میدان میں چین پر بھی سبقت لے جائے گا۔
بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل برانڈ کے ملبوسات تیار کرنے والے 4500 کارخانے کام کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین ہی بروئے کار ہیں۔ بنگلہ دیش ان ملبوسات کو ایکسپورٹ کر کے 35ارب ڈالر سالانہ کا زرِ مبادلہ کما رہا ہے۔ اور پاکستان بسیار کوشش کے باوجود اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں بے تحاشہ کمی کے باوصف اپنی (ٹیکسٹائل) ایکسپورٹ میں مطلوبہ اضافہ نہیں کر سکا ہے۔
بنگلہ دیش کی آج شرحِ نمو پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی عالمی مالیاتی ادارے پیشگوئی کر رہے ہیں کہ جب 2020 کا رواں سال اختتام کو پہنچے گا، بنگلہ دیش کی گروتھ ریٹ یا شرحِ نمو 8 فیصد ہو چکی ہو گی جب کہ 2021 تک بھی پاکستان کی شرحِ نمو 3 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکے گی ۔ آج بنگلہ دیش کے ہر شہری کی سالانہ آمدن پاکستانی شہریوں سے بڑھ چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کی نسبت مہنگائی کی شرح بھی خاصی کم ہے۔
جنوری 2020 کے دوسرے ہفتے ایشیائی بینک نے بھی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’پاکستان (عمران خان کی حکومت میں) جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ مہنگائی والا ملک بن چکا ہے۔‘‘ بھارت میں شرحِ مہنگائی 4.1 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.5 فیصد اور پاکستان میں 14 فیصد ہے۔ یہ حقیقت بھی ہمارے لیے باعثِ ندامت و حیرت ہے کہ آج بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر (32ارب ڈالر) پاکستان سے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی شرحِ خواندگی اور بنگلہ دیشیوں کی اوسط عمر بھی بہتر ہے۔
ایٹمی پاکستان میں یہ بات شائد نامناسب خیال کی جائے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ بنگلہ دیش نے اپنی شرحِ آبادی کو بھی کنٹرول کیا ہے، آیا یہ ہمارے لیے سبق نہیں ہے؟ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگلے سال یعنی 2021میں بنگلہ دیش کی کُل معیشت 322 ارب ڈالر تک چلی جائے گی۔ کیا ہمیں بھی اس بارے سوچ بچا رنہیں کرنی چاہیے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے پچھڑنے کا احساس تک نہیں رہا!!
The post ہم بنگلہ دیش سے کیا سیکھ سکتے ہیں ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I5gwvg
Post a Comment Blogger Facebook