فروری کا مہینہ تھا جب 1869 میں چودہ فروری کو غالبؔ کو اسٹروک ہوا اور اگلے دن وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ غالبؔ ایک قادرالکلام شاعر اور دنیائے ادب کا روشن چراغ ہے اس لیے مجھ جیسے ادنیٰ سے ادنیٰ اور انتہائی کوتاہ قد ادب کے طالبعلم کے اوپر بھی لازم آتا ہے کہ وہ اس عظیم استاد کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے کچھ سعی کرے۔
غالبؔ کو اپنے دور میں خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملی مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔20 ویں صدی غالبؔ شناسی کی صدی ٹھہری۔ حالی کے بعد علامہ اقبال نے غالبؔ شناسی کی طرف متوجہ کیا۔
غالبؔ کو بہت اچھے سوانح نگار، نقاد، شارح اور ریسرچرز ملے۔ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ عبدالرحمٰن چغتائی اور صادقین جیسے مصوروں نے اپنے مو قلم (برش) کو ا ن کے حق میں استعمال کیا۔ الطاف حسین حالی، سالک اور غلام رسول مہر جیسے سوانح نگار، نقادوں میں حالی، ڈاکٹر بجنوری، پروفیسر رشید احمد صدیقی اور غلام رسول مہر، شارحین میں مولانا طباطبائی، سہا بھوپالی، نیاز فتح پوری اور بے خود دہلوی جیسے شارحین غالبؔ کو نصیب ہوئے۔ غالبؔ پر جو تحقیق ہوئی وہ اپنے معیار ِفکر و نظر میں اردو کی بہت ہی شاندار تحقیقات کا نمونہ ہے۔
غالبؔ کے دادا میرزا قوقان بیگ سمرقند سے ہندوستان آئے۔ غالبؔ کے والد عبداﷲ بیگ اس وقت وفات پا گئے جب غالبؔ ابھی پانچ سال کے تھے۔ غالبؔ کے چچا میرزا نصراﷲ بیگ نے چاہا کہ میرزا غالبؔ کی نازو نعم میں پرورش ہو لیکن وہ بھی جلدی ہی داعی ٗ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ غالبؔ کے دادا، والد اور چچا سبھی صاحبِ تیغ و تفنگ تھے یعنی سبھی سپہ گری کے پیشے سے وابستہ رہے اسی لیے غالبؔ کہتے ہیں:
سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری۔ کچھ شاعری ذریعہٗ عزت نہیں مجھے۔ غالبؔ خود اپنا تعلق توران کے ترک ایبک خانداں سے بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں۔ غالبؔ از خاکِ پاک تورانیم۔ پھر کہتے ہیں۔ ترک زادیم ‘ درنژاد ہمی، ایبکم از جماعہۃ اتراک۔
اے غالبؔ ہم خاکِ پاک توران سے متعلق ہیں۔ ہم ترکوں کی جماعت میں ایبک کہلانے والے ہیں۔ اسی طرح میرزا غالبؔ نے اپنے خاندان کی قبائلِ سلجوق سے نسبت جوڑی ہے، خود لکھتے ہیں۔ اس نامہ نگار کا خاندان افراسیاب و پشنگ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ میرے دادا نے اپنے باپ سے رنجیدہ ہو کر ہندوستان کا رخ کیا۔ شہرِ لاہور میں معین الملک کی ہمراہی اختیار کی۔
جب معین الملک کی بساط الٹ گئی وہ دہلی آئے اور میرزا نجف بخت خان بہادر کے دامنِ دولت سے وابستہ ہوئے۔ میرے والد میرزا عبداﷲ بیگ خاں شاہ جہان آباد میں تولد ہوئے اور میری پیدائش اکبر آباد میں ہوئی۔ اپنے عقیدے کے بارے میں ایک شعر میں یوں گویا ہوئے، میں قائلِ خدا و نبی وامام ہوں۔ بندہ خدا کا اور علی کا غلام ہوں۔ پھر فرماتے ہیں، مشغول ہوں بندگی‘ بوتراب میں۔ غالبؔ اپنے کلام اور خطوط کی روشنی میں وحدتِ وجود کے قائل نظر آتے ہیں۔
میرزا غالبؔ نے کسی خاص استاد سے باقاعدہ تحصیلِ علم نہیں کیا۔ مطالعے کا شوق تھا، وہ فارسی زبان و ادب سے ایک پیدائشی و قدرتی مناسبت اور شعر گوئی کا ایک فطری میلان رکھتے تھے۔ منشی بہاری لال مشتاق کا بیان ہے کہ لالہ کٹھیا لال آگرے والے، غالبؔ کے ہم عصر جب دلی آئے تو غالبؔ سے پوچھا کہ پتنگ بازی کرتے ہوئے جو مثنوی آپ نے لکھی تھی وہ آپ کو یاد ہے۔ غالبؔ کے انکار پر انھوں نے کہا کہ وہ میرے پاس موجود ہے اور پھر وہ مثنوی انھوں نے لا کر غالبؔ کو دی۔لالہ بہاری لال کا بیان ہے کہ مثنوی لکھتے وقت غالبؔ کی عمر کوئی نو برس کی ہو گی،1931میں ایڈیٹر سہ ماہی ’’اردو‘‘ اورنگ آباد کے نوٹ کے ساتھ یہ مثنوی شایع ہوئی۔
میرزا کی شادی تیرہ برس کی عمر میں نواب الٰہی بخش خان کی چھوٹی بیٹی اُمراوء بیگم سے ہوئی۔ امراٗو بیگم کا خاندان ایک متمول اور معزز خاندان تھا لیکن غالبؔ کے ہاں دکھ ہی دکھ تھے۔ بچپن میں سایہ‘ پدری کا اُٹھ جانا، پھر چچا کی رحلت، بھائی کی دیوانگی، قرض خواہوں کے تقاضے، مختصر یہ کہ آلام و مصا ئب کا ایک ہجوم۔ جب اُن کے خسر انتقال کر گئے تو غالبؔ کی مشکلات دو چند ہو گئیں۔ قرضے بڑھ گئے ۔ ان کے سفر کلکتہ نے ان کے قرض اور مالی پریشانیوں میں بے حد اضافہ کر دیا۔ غالبؔ نے خالقِ کائنات سے غموں اور تکالیف کا گلہ کرنے کے بجائے صرف یہ کہا۔ میری قسمت میں غم، اگر، اتنا تھا۔دل بھی، یا رب کئی دیے ہوتے۔ عارف کی نا وقت موت کا غالبؔ کو شدید صدمہ ہوا۔
تم ماہِ شب چار دہم تھے میرے گھر کے، پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کئی دن اور۔ نادان ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہو غالبؔ، قسمت میںہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور۔
یہ صحیح ہے کہ غالبؔ کی زندگی میں ان کی وہ قدر و منزلت نہ ہوئی جس کے وہ حق دار تھے لیکن اپنی زندگی میں وہ کوئی گمنام شاعر بھی نہیں تھے۔ ان کی زندگی میں ان کا اردو مجموعہ کلام پانچ بار چھپا۔ غالبؔ اپنے آپ کو فارسی کا شاعر گردانتے تھے۔ فارسی حکومت کی زبان تھی۔ مغل دربار نے گزرتے وقت کے ساتھ فارسی کا چلن چھوڑ کے اردو کا دامن تھام لیا۔
بہادر شاہ ظفر اردو ہی کے شاعر تھے۔ انگریز حکومت کی زبان انگریزی تھی نہ کہ فارسی۔ انگریزوں نے بھی فورٹ ولیم کالج قائم کر کے اردو کا ساتھ دیا۔ لیکن غالبؔ خود لکھتے ہیں کہ میری اردو شاعری تو میرے گلزارِ سخن کا ایک مُرجھایا ہوا پتا ہے اور اس میں میری شاعری کا اصل رنگ نہیں جھلکتا۔ میری فارسی شاعری کے آئینے میں میرے جوہر دیکھو۔ گویا زمانے کا چلن تبدیل ہو رہا تھا، حکومت میں فارسی کی جگہ انگریزی لے رہی تھی اور ادب میں اردو۔ اردو زبان ٓمیر جیسا بڑا شاعر پیدا کر چکی تھی ۔غالبؔ خود کہتے ہیں۔ ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ، کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرٓ بھی تھا۔
غالبؔ کو اپنی قاد رالکلامی اور زبان دانی پر بجا طور پر فخر تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ غالبؔ کا کمالِ تخیل و تفکر فارسی شاعری میں اپنے اوجِ کمال پر ملتا ہے۔ غالبؔ کے خطوط غالبؔ شناسی کے لیے بہت ہی اہم سرمایہ اور ذریعہ ہیں۔ خطوط سے جو شخصیت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔
منشی بنسی لال دھر سے پتنگ کے پیچ لڑائے۔ رات گئے تک شطرنج کی چالوں میں الجھے تو کبھی فارسی زبان و ادب کے مطالعے میں غرق ۔ غالبؔ دہلی آتا ہے تو ہوا دار سے کبھی کسی عالم اور امیر زادے کے ہاں اتر جاتا ہے، کبھی مشاعروں میں رنگ جماتاہے، پنشن کی پیروی کے لیے کلکتے جاتا ہے۔ معدودے چند کو چھوڑ کر کسی ہندوستانی فارسی دان کو سند نہیں مانتا۔ دہلی واپس آنے کے بعد جوا کرانے کے جرم میں گرفتار ہوتا ہے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا استاد مقرر ہوتا ہے۔ 1857کے ہنگامے میں بادشاہ کا طرف دار ہونے کا الزام لگتا ہے ۔ انگریزی دربار میں کرسی بحال ہونے پر بھی خلوت نشین ہی رہتا ہے۔ دوستوں عزیزوں اور چاہنے والوں کو سیدھی سادی بول چال کی زبان میں خط لکھتا ہے۔ طرح طرح کی بیماریوں سے پالا پڑتا ہے مگرمے خوری نہیں جاتی۔ جام و صبو سے شغل آخری وقت تک جاری رہتا ہے اور اس طرح ہنستا ، بیماریاں جھیلتا اور دکھوں پر دکھ اُٹھاتا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
The post اسداﷲ خان غالب اور فروری appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/387MYrp
Post a Comment Blogger Facebook