اس وقت دنیا جس خوف میں مبتلا ہے، وہ ہے کورونا وائرس کا۔ بہت پرانی بات نہیں، چند ہفتوں میں ہم نے اس وائرس کا سب سے پہلے چین کے ایک صوبے میں پھیلنے کا سنا اور ابھی سمجھ ہی نہ پائے تھے کہ کیا بلا ہے کہ ایک صوبے سے نکل کر یہ چین کے بیشتر علاقوں میں تیزی سے پھیلا اور انجام کار اس سے بہت سی اموات واقع ہوئیں تو دنیا بھر میں خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی۔ ایسے میں جو لوگ اس وائرس کے خوف سے چین سے بھاگے، وہ ان جراثیم کے کیرئیرز ٹھہرے اور دنیا کے چپے چپے میں دنوں میں یہ وائرس پھیل گیا۔

روز سنتے تھے کہ آج فلاں ملک میں اتنے مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی اور کل فلاں ملک میں۔ اتنی تیزی سے پھیلنے والا یہ وائرس، جہاں ہم سب کو اپنے تیزی سے پھیلاؤ کے باعث فکر میں مبتلا کیے ہوئے تھا اور جوں جوں یہ تعداد بڑھ رہی تھی، توں توں تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس نوعیت کے پیغامات آ رہے تھے کہ حرام کھانیوالوں کو اسی نوعیت کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، مگر اس وائرس کو فقط چین تک تو نہیں رہنا تھا۔

ہم بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیںتو پھر کیونکر ممکن تھا کہ ہم اس کی لپیٹ سے باہر رہتے۔ جس روز سویرے اٹھ کر اخبار میں یہ پڑھا کہ پاکستان میں بھی دو مریضوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے، اس روز پورے بدن اور دماغ میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ نہ صرف یہ کہ دو مریضوں میں کرونا وائرس پایا گیا ہے اور انھیں اسپتال میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مبتلا، چند دن قبل ایران سے لوٹا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وائرس کے اثر انداز ہونے کی علامات چند دن کے بعد ظاہر ہوتی ہیں مگر اس وقت یہ وائرس، مریض کے چھینکنے اور کھانسنے سے کہاں کہاں تک پھیل چکا ہوتا ہے۔ اگر چہ باربار یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس وائرس کے زیر اثر مریضوں میں سے اٹھانوے فیصد صحت یاب ہو جاتے ہیں، مگر وہ جو دو فیصد ہے… اس کا خوف، اس کے اثرات بچ جانے والوں سے کہیں زیاد ہ ہیں۔

پاکستان میں اس کے مریضوں کا علم ہوتے ہی، اس کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر بلوچستان اور سندھ میں اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ شاید اسکولوں کے علاوہ اس کے کہیں پھیلنے کے امکانات کم ہیں۔ ہمارے یہاں تو اس بیماری کو ایک دوسرے تک منتقل کرنے کے امکانات شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہوں گے یا ہم ان ملکوں میں ضرور شامل ہوں گے جہاں حفظان صحت کے اصولوں کو کم ہی مد نظر رکھا جاتا ہے۔

تھوکنے، کھانسنے، چھینکنے، سڑکوں کے کنارے حوائج ضروریہ سے فاغ ہونے کے بعد، بغیر ہاتھ دھوئے… کسی سے مصافحہ کر لینا، انھی ہاتھوں سے چند منٹوں میں کچھ کھا لینا یاکسی اور چیز کو چھو لینا عام ہے۔ ماسک ہمارے ہاں کیا کر سکیں گے… جہاں گھروں میں تولیے تک علیحدہ نہیں رکھے جاتے، اسپتالوں میں ہدایات کے باوجود، استعمال شدہ سرنجیں دو بار نہیں، کئی کئی بار استعمال ہوتی ہیں۔

آج کل Whatsapp پر سوائے کورونا وائرس سے متعلقہ پیغامات کے کچھ اور شیئر نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان پیغامات کو شیئر کرنیوالوں میں بڑی تعداد تیرے میرے جیسے لوگوں کی ہے جو کہ کسی پوسٹ کو بغیر دیکھے، پڑھے یا جانچے… اسی طرح فارورڈ کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر پیغامات میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ وائرس امریکا نے خود ہی پھیلا یا ہے… چلیں اگر ایسا ہے بھی تو امریکا کس حد تک اور کس طرح محفوظ رہ سکے گا؟

اب سارے مذہبی پیغامات کا رخ بھی بدل گیا ہے، سب لوگ اسی نوعیت کے پیغامات بھیج رہے ہیں کہ کیا کچھ پڑھا جائے تو کورونا وائرس کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ اسی طرح مفت میں ملنے والے طبی مشوروںمیں بھی یہی بات ملحوظ رکھی جا رہی ہے کہ کس سبزی کو ابال کر کھانے سے، کس کو نمک لگا کر کچا کھانے سے، کن بیجوں کو ابال کر ان کا قہوہ بنا کر پینے سے، کس تیل کو رات سونے سے پہلے ناک میں اچھی طرح چپڑ لینے سے اور کس طرح اور کتنا پانی پینے سے اس وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔

اگر ان میں سے کسی بات میں کوئی حقیقت ہے، کوئی مستند ٹوٹکہ ہے تو اسے کسی آزمودہ طریقے سے بنا کر عوام تک پھیلائیں، ورنہ ہم سب یونہی ہر روز لہسن، پیاز، مولی، کلونجی اور زیتون کے تیل کے چکروں میں پڑے رہیں گے۔ ان پیغامات میں لطائف بھی ہیں، وہ بھی تیزی سے پھیلتے ہوئے اس کرونا وائرس کے حوالے سے۔ اچھا ہے کہ ہماری حس مزاح ایسے حالات میں بھی سلامت ہے اور ہم مشکل سے مشکل حالات میں بھی مسکرا سکتے اور دوسروں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ لا سکتے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کس پیغام پر یقین کریں اور کس پر نہیں۔ فارورڈ پیغامات میں بسا اوقات مشتبہ سائنسی اور طبی معلومات کے علاوہ، احادیث اور اقوال تک بھی مستند نہیں ہوتے۔ اگر وہ تمام ولی اللہ، مفکر، شعراء، ادیب اور دانشور لوٹ کر آ جائیں، جن کے حوالے سے آج کل پیغامات پھیلتے ہیں تو شاید وہ خود بھی حیرا ن رہ جائیں کہ، ’ہائیں، یہ سب بھی کہا تھا ہم نے!‘ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر بطور قوم ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور کوشش کریں کہ کم سے کم panic کی صورتحال بنائیں۔

ہر کھانسنے یا چھینکنے والے کو کرونا وائرس کا مریض نہ سمجھ لیں اور نہ ہی ہر کھانسی یا چھینک کو معمول کی بیماری سمجھیں اللہ تعالی ہم سب کو اس آفت سے بچا کر رکھے، لیکن ضروری ہے کہ ہمارے ملک میںاس سے لوگوں کو اس خطرے اور اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات سے آگاہی ہو۔ اس کے لیے اس وقت ہمارے ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی چینلز اور میڈیا کی ذمے داری ہے کہ عوام کو اس کے خطرات، علامات، احتیاطی تدابیر اور علاج سے متعلق معلوماتی پروگرام مسلسل دکھائیں اور سنائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک وائرس ہے جس سے ایسا فلو ہو سکتا ہے کہ بالآخر انسان کی جان تک جا سکتی ہے۔

یہ ایک قدرتی آفت ہے اور ہر قدرتی آفت کے لیے اسباب ہماری غلطیاں ہی عموما فراہم کرتی ہیں، خواہ وہ جنگلوں میں لگنے والی آگ ہو یا ندی نالوں میں طغیانی۔ جب کوئی بھی آفت اللہ تعالی کی طرف سے آتی ہے تو ہماری اس کے سامنے کیا مجال؟ ہمیں دل سے اس پر تائب ہونا چاہیے، گڑگڑا کر معافی مانگنی چاہیے کیونکہ دست قدرت کی طاقت کے آگے انسانی احتیاطی تدابیر کم پڑ جاتی ہیں، ہمارے اختیار کی ایک حد ہے۔

ملک میں پہلے دن دو لوگوں میں مرض کی تشخیص ہونے کا مطلب ہے کہ ان دو سے کئی اور بھی ’’پکڑے‘‘ جا چکے ہوں گے اور اگر احتیاطی تدابیر کا دائرہ نہ بڑھایا گیا تو یہ تعداد دنوں میں، ہمار ے جیسی بڑی آبادی اور گنجان رہائشی علاقوں والے ملک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔ ہم تو ایک چھوٹے سے علاقے میں بھی اچانک کسی وباء کے پھوٹ پڑنے سے کے بعد اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، خواہ وہ بچوں میں دست یا اسہال کی بیماری ہو یا کوئی زہریلی چیز کھا لینے سے چند درجن افراد کا یکدم بیمار پڑ جانا۔

امید ہے کہ حسب توقع، وہ تمام کمپنیاں جو کہ ماسک بناتی ہیں یا بیچتی ہیں، ان کے خوابوں میں آج کل چاندی نہیں بلکہ سونا آ رہا ہو گا۔ یوں بھی اس ملک کے غریب عوام کے لیے ہر روز، بلکہ دن میں بارہا ماسک تبدیل کر کے استعمال کرنا آسان اور ممکن نہیں۔ ا س کے لیے ضرورت ہے کہ حکومت یا فلاحی ادارے لوگوں میں مفت ماسک تقسیم کریں یا جو لوگ نت نئے آئیڈیاز رکھتے ہیں وہ لوگوں کو آسان اور سستے ماسک گھروں پر بنانے کی تراکیب بتائیں ۔ کاغذی کے بجائے، کپڑے کے ایسے ماسک بنائے جائیں جوکہ دھو کر با ر بار استعمال کیے جا سکتے ہوں۔

اس وقت ان تمام ممالک میں کہ جہاں جہاں اس کا دائرہ پھیل چکا ہے، ان ملکوںکی سیاحت اور زیارات تک پابندی لگ چکی ہے لیکن یقینا اس وائرس کو سفرکرنے کے لیے جہاز اور ٹرین نہیں چاہیے ہو گی۔ عام حالات میں نہ سہی مگر ایسے مصائب کے وقت میں میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ حکومتیں بچانے کا نہیں بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو بچانے اور لوگوں کو بیماری سے قبل از وقت محفوظ کرنے کا ہے۔ انسانی جان کی وقعت بہر حال ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔

The post یہاں بھی پہنچ گیا… appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/397wYa5

Post a Comment Blogger

 
Top