امریکا ، طالبان امن معاہدہ کے اثرات ومضمرات اورخدشات و نتائج رفتہ رفتہ سامنے لائے جارہے ہیں،خطے کی سیاست ، تاریخی عوامل، بڑی طاقتوں کی دوراندیشی اور افغان عوام کو امن کی سوغات دینے کی کوشش کیا رنگ لائے گی اس پرکوئی بات کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ایک مبصر نے کہا ہے کہ گیند لڑھک رہی ہے ، اب دیکھنا یہ ہے اسے جال میں پھینکنے کی کامیابی کسے ملے گی، صدر اشرف غنی کو ، دوسرے صدر عبداللہ ، عبداللہ کو یا اب تیسرے نامزد ’’صدر‘‘ ہیبت اللہ خان کو۔ صورتحال نے بلاشبہ ڈرامائی رخ اختیار کرلیا ہے۔ یقین وبے یقینی کی جنگ شدت پکڑسکتی ہے۔
بہرحال صدارتی انتخابات کے بعد امن معاہدہ ہوا، ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی کو صدر منتخب قرار دیا گیا، تاہم چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے خود ساختہ صدر ہونے کا اعلان کر دیا، یوں افغانستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار دو نہیں بلکہ تین شخصیات بیک وقت عہدہ صدارت کی دعویٰ دار ہیں، اس گنجلک ، پیچیدہ اور اعصاب شکن مسئلہ کا کوئی حل ڈھونڈنا امریکا سمیت تمام بڑی طاقتوں کا بنیادی ٹاسک ہوگا۔ اس وقت افغانستان کسی نئے بحران، خانہ جنگی اور بربادی کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ ایسا پنڈورا بکس ہے جو ایک بار پھر عاقبت نا اندیشی کے باعث پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، لہٰذا اسٹیک ہولڈرزکو جو افغان امن صورتحال کے اہم جب کہ تزویراتی منظرنامہ کے کلیدی کردار ہیں۔ حالات کوکنٹرول کرنے کے لیے کثیرجہتی پلان لے کر میدان میں اترنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امن کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہمیں فیض کے کلام کے اس بے مثل مصرع سے رجوع کرنا ہوگا، جو زمینی حقائق کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ فیض نے شاید افغان صورتحال کے سیاق وسباق میں کہا تھا۔
اگر شررہے تو بھڑکے جو پھول ہے توکھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے
یہ ایک خود توضیحی طرز احساس ہے جس پر غورکرنے کی اس لیے ضرورت ہے کہ امریکا نے افغانستان میں متوازی حکومت کے قیام کی شدید مخالفت کردی جب کہ طالبان نے بھی نئے افغان صدرکا اعلان کر دیا۔ ادھر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی بھی شروع ہوگئی ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میںکہا ہے کہ ہم افغانستان میں متوازی حکومت کے کسی بھی اقدام اور سیاسی اختلافات کو حل کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ وائس آف امریکا کے مطابق افغان طالبان نے اپنی حکومت قائم کرنے اور ملک کے نئے سربراہ کے نام کا اعلان کردیا ہے۔
افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ ان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ ملک کے قانونی سربراہ ہیں اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلامی حکومت قائم کر لی جائے گی، دوسری جانب طالبان سے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی شروع ہو گئی ہے، افغانستان میں امریکی فورسز کے ترجمان سونی لیگٹ نے کہا ہے کہ 135دنوں میں فوجیوں کی تعداد 8600 کرنے کے لیے فوجیوں کی مشروط واپسی شروع کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مقاصد کی تکمیل بشمول انسداد دہشتگردی آپریشن اور افغان قومی دفاع اور افغان فورسزکی مدد فراہم کرنے کا اختیار محفوظ رکھتے ہیں۔ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر ووٹنگ کرے۔
ادھر افغان حکومت میں صدارتی دراڑ ، طالبان قیادت کے تحفظات اور نئے اعلانات کے بعد داخلی صورتحال نے کشمکش کو دوچند کردیا ہے، روس بھی برہم ہے، اس نے امریکا کے ساتھ اس نکتہ نظرکا اظہار کیا ہے کہ مشترکہ طور پر وہ افغانستان میں کسی افغان امارات الاسلامیہ کو تسلیم نہیں کریں گے جب کہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ مذہبی ، نظریاتی اور شرعی طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم کریں۔
سیاسی ذرائع اور سفارتی حلقوں نے پیدا شدہ بحران کے حل کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے امریکا اور دیگر طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آتش فشاں پھٹنے سے پہلے اصلاح احوال کی کوئی تدبیر کریں، ورنہ خطہ آگ اور خون کی لپیٹ میں آجائے گا۔
سیاسی حلقوں کا کہنا تھا کہ امریکیوں کو اندازہ تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین ایک پرامن بقائے باہمی کا پیدا ہونا ناگزیر ہے اس کے بغیر وہ سیاسی اختلافات ختم نہیں کرسکتے اور ان کے درمیان تنازعات کی ایک وسیع خلیج بھی حائل ہے، طالبان کا انداز نظر یہ ہے کہ وہ ملا عمر کی ختم کی گئی حکومت کا از سر نو احیا چاہتے ہیں اور اپنی ایک شرعی اسلامی شناخت کا تقاضہ بھی ان کی اولین ڈیمانڈ ہے۔ ’’ڈیلی آؤٹ لک‘‘افغانستان نے لکھا ہے کہ افغانستان کی مخلوط حکومت کی مشترکہ سیاسی جدوجہد انتظامی استحکام مہیا نہیں کرسکی۔
افغان حکمران باہمی لڑائی اور پاکستان پر الزامات لگانے میں وقت اور توانائی ضایع کرتے رہے، جب کہ14 برس تک افغان عوام کو یقین تھا کہ کسی نہ کسی دن الیکشن ان کے وطن میں امن وسلامتی کی نوید لائے گا، اب چونکہ یہ امید پیدا ہوچلی ہے، اس لیے افغانستان کے قائدین کو لمحہ حاضر کی اہمیت کا ادراک کرنا چاہیے اور اپنے تمام اختلافات ختم کرکے امن معاہدہ پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔
وزیر اعظم عمران خان سمیت چین ، روس اور دیگر ملکوں نے صدر اشرف غنی کو مبارکباد دی ہے، تاہم اسی صدارتی محل کے ایک حصے میں عبداللہ عبداللہ کی حلف وفاداری بھی ہوئی جس میں پاکستان سے اراکین قومی اسمبلی، سیاسی رہنماؤں اور سفیروں نے شرکت کی۔ ادھراقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے افغان صدر اشرف غنی کے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد قابل قبول جامع حکومت کی تشکیل کے عزم کا خیرمقدم کیا ہے۔
ان کے ترجمان اسٹیفن کے مطابق سیکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سیاسی قائدین اپنے اختلافات کو ملکی قواعد وضوابط ، استحکام و یکجہتی کے مفاد اور آئینی حکم کے مطابق حل کریں ،چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین افغانستان کے موجودہ صدر محمد اشرف غنی کو دوسری صدارتی مدت کے آغاز پر مبارکباد دیتا ہے۔
ترجمان گینگ شوانگ نے منگل کو پریس بریفنگ میں کہا کہ چین افغان عوام کے ملکی مستقبل کے اس آزادانہ فیصلے کا احترام کرتا ہے، ترجمان نے افغانستان کی تمام جماعتوں سے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کو ترجیح دینے، اتفاق رائے پیدا کرنے اور پرامن تعمیر نواور مصالحت کے عمل میں آسانی پیدا کرنے کا مطالبہ کیا۔ادھر خود ساختہ افغان صدر عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں بھی خود کو صدر قرار دے دیا۔
اب دیکھنا ہے کہ افغان امن معاہدہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیونکہ خطے میں امریکا سمیت اہم عالمی رہنماؤں کی امن دوستی اور سیاسی بصیرت کا اصل امتحان شروع ہوچکا ہے۔
The post افغانستان کا اعصاب شکن چیلنج appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TXDWrP
Post a Comment Blogger Facebook