''کہتے ہیں موت پکارتی ہے۔۔۔اور کچھ لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں بھی نکلنا شروع ہوجاتی ہیں جو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ ان کی موت سے ہی جڑتی ہیں۔۔۔لیکن انسان کا ذہن انہیں سمجھنے سے قاصر ہے''

''لیاقت سولجر''
۲۰۱۱ ۔۔۔تیس مارچ صبح کے آٹھ بجے تھے اور سماء ٹی پر مایا خان کے مارننگ شو کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔۔۔نو بجے براہ راست جانا ہوتا ہے اس لئے شو کے مہمانوں کو اسٹوڈیو کے لئے بلانا شروع کردیا۔۔۔آج انڈیا پاکستان کے درمیان سیمی فائنل کا میلہ سجانا تھا۔۔۔اس لئے شو میں فردوس عاشق اعوان کو بھی کال پر لائن اپ کیا تھا۔۔۔آخر سیالکوٹ کی ہیں تو شعیب ملک کے لئے ہی کچھ باتیں سن لیں گے۔۔۔۔شو کے ایک مہمان تھے لیاقت سولجر۔۔۔شو کے درمیان لیاقت سولجر نے فردوس عاشق اعوان سے چوہدری شجاعت کے انداز میں بات کی اور بارہا کہا مٹی پاؤ، مٹی پاؤ۔۔۔پھر اچانک بولے۔۔۔میں اتنا مٹی پاؤ مٹی پاؤ کر رہا ہوں۔۔۔مجھے لگ رہا ہے مجھ پر ہی مٹی پڑنے والی ہے۔۔۔بات مذاق میں آئی گئی ہوگئی اور شو ختم ہوا۔۔۔ان سے درخواست کی گئی کہ لیاقت بھائی ہماری نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن کے لئے رک جائیں۔۔۔انہوں نے جواب دیا۔۔۔رک جاؤں گا لیکن ایک شرط پر۔۔۔میرے دوست شہزاد رضا کو بلوا دو۔۔۔ان کی خواہش پر شہزاد رضا کو کال کی گئی۔۔۔انہوں نے کہا کہ معاف کرنا لیکن میں نہیں آپاؤں گا۔۔۔لیکن لیاقت سولجر نے پھر کال کروائی اور اصرار کیا کہ تمہیں آنا ہوگا ۔۔۔شہزاد رضا پہنچ گئے اور دونوں نے نیوز کی ٹرانسمیشن اٹینڈ کی۔۔۔دوران ٹرانسمیشن ہی لیاقت سولجر کے دل پر گھبراہٹ شروع ہوگئی۔۔۔انہیں فوراً ہسپتال لے جانے لگے۔۔۔۔سماء ٹی وی کے دفتر کی وہ لفٹ اور لیاقت سولجر کی آخری سانسیں۔۔۔یہ ایک ایسی موت تھی جس نے ماحول کو سوگوار ہی نہیں کیا بلکہ عجیب حیرت میں ڈال دیا۔۔۔کیا وہ شہزاد رضا کے ہاتھوں میں ہی دم توڑنا چاہتے تھے؟۔۔۔کیا انہیں اندازہ تھا کہ اب مجھے جانا ہے؟۔۔۔
''امجد صابری''
بائیس جون ۲۰۱۶ ۔۔۔سولہواں روزہ۔۔۔آج امجد صابری کو سحری ٹرانسمیشن میں سماء ٹی وی پر بلال قطب کے شو میں دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔۔۔یہ تو معمول تھا۔۔۔امجد صابری آتے تھے اور سماء باندھ دیتے تھے۔۔۔چہرے پر مسکراہٹ لئے، اپنی انتہائی خوش اخلاق طبیعت کے ساتھ وہ ہمیشہ ہر ایک کے لئے حاضر ہوجاتے۔۔۔لیکن آج کچھ الگ تھا۔۔۔آج پہلی بار امجد صابری کے چہرے پر ایک غم تھا۔۔۔ان کی آوز میں رقت تھی۔۔۔انہوں نے کلام پڑھنا شروع کیا۔۔۔’’اے سبز گنبد والے، منظور دعا کرنا‘‘۔۔۔محفل میں ایک سماء بندھ گیا۔۔۔جیسے ہی انہوں نے پڑھنا شروع کیا ’’میں قبر اندھیری میں، گھبراؤں گا جب تنہا۔۔۔امداد میری کرنے آجانا رسول اﷲ ﷺ‘‘ اور ان کی ہچکیاں بندھنا شروع ہوگئیں۔۔۔ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔۔۔یہ کیسا اشارہ تھا۔۔۔یہ کیسا غم تھا جو آج امجد صابری کی آواز میں تھا۔۔۔وہ واپسی پر گھر گئے تو ان کی والدہ نے پوچھا کہ آج تم اداس ہو۔۔۔اور انہوں نے اس بات کا اقرار کیا۔۔۔پھر دوپہر میں ان کی شہادت کی خبر ہر ٹی وی اسکرین پر تھی اور یوں لگتا تھا کہ دل پھٹ جائے گا۔۔۔

Post a Comment Blogger

 
Top