''رسومات کا تعلق یا تو مذہب سے ہوتا ہے یا پھر ثقافت سے۔ ہر علاقے، قبیلے حتیٰ کہ ہر خاندان میں پائی جانے والی رسمیں دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ شادی بیاہ، موت اور بچوں کی پیدائش کی یہ رسومات ان کے ماننے والوں کیلئے تو بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ دیگر لوگوں کو عجیب محسوس ہوتی ہیں۔ زمانے نے اپنے انداز بدلے تو کئی روایات نے بھی دم توڑ دیا اور ان کے ماننے والوں نے بھی انہیں ساتھ لے کر چلنا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی ان رسومات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے کسی بھی ملک اس کی ثقافت اور رسم و رواج کے بارے میں جاننا مشکل نہیں رہا۔ دنیا میگزین کے حوالے سے ذیل میں بھی کچھ ایسی رسومات کا ذکر کیا جارہا ہے جو پڑھنے میں شاید آپ کو بھی عجیب و غریب محسوس ہوں لیکن ان کو ماننے والے آج بھی موجود ہیں۔''
 

''غم کے اظہار کیلئے انگلیاں کاٹنا''

''مختلف تہذیبوں میں غم کے اظہار کیلئے مختلف انداز اپنائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر کسی کی فوتگی پر کچھ سینہ کوبی کرتے ہیں، کچھ چیختے چلاتے ہیں جبکہ انڈونیشیا میں ’’ڈانی قبیلے‘‘ کے لوگ کسی کے مرنے پر ایک عجیب انداز اپناتے ہیں، روتے ہوئے نہ صرف خاک اور دھواں اپنے چہرے، سر پر ملتے ہیں بلکہ اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ہی کاٹ دیتے ہیں۔ اس قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے اگر مرنے والا ایک کمزور دل شخص ہو تو اسے اگلے جہان کی مشکلات سہنے اور طاقت ور بنانے کیلئے خاندان کے لوگ اپنی انگلیاں کاٹ کر قربانی دیتے ہیں۔ مرنے والے شخص کی روح کو آسانی ملے اس لئے مرحوم کی قریبی رشتہ دار خواتین اپنی انگلیوں کے اوپر والے کنارے کاٹ دیتی ہیں۔انگلیاں کاٹنے سے پہلے انگلیوں کے پوروں کو تیس منٹ کیلئے باندھ دیا جاتا ہے۔ کاٹنے کے بعد انگلیوں کے کٹے ہوئے پوروں کو خشک ہونے کیلئے رکھ دیا جاتا ہے اور بعد میں ایک خاص جگہ پر دفنا دیا جاتا ہے۔ ڈانی قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انگلیاں کاٹنے پر جو درد اور تکلیف محسوس ہوتی ہے وہ درحقیقت اپنے کسی پیارے سے بچھڑنے کے غم کا اظہار ہے۔اس قبیلے میں نہ صرف موت پر انگلیاں کاٹی جاتی ہیں بلکہ بچے کی پیدائش کے وقت بچے کی ماں ہی اس کی سب سے چھوٹی انگلی کو زور سے دانت کاٹتی ہے تا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہو اور لمبی زندگی جیئے۔''

''دھواں زدہ ممی''

''مختلف مذاہب میں مرنے کے بعد لاش کو اس دنیا سے اگلے جہان بھیجنے کیلئے مختلف انداز اپنائے جاتے ہیں۔اسلام اور عیسائیت میں مردوں کو دفنایا جاتا ہے جبکہ ہندو اپنے مردوں کو جلا کر ان کی خاک گنگا و جمنا میں بہا دیتے ہیں، مصر میں لاشوں کو مصالحے لگا کر محفوظ کر لیا جا تا تھا۔ لیکن پاپوا جینوا میں’’ آنگا قبیلے‘‘ کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاشوں کو ایک الگ انداز میں محفوظ رکھتے ہیں۔اگرچہ یہ طریقہ کار بھی مصر میں موجود ممیوں جیسا ہے لیکن ان کا انداز ان سے مختلف ہے۔ یہ لاش کو محفوظ کرنے کیلئے دھوئیں کا استعمال کرتے ہیں۔لاش کو تیس دن کیلئے ایک جھوپڑی میں آگ جلا کر دھویں میں سینکا جاتا ہے پھر اسے دفنانے یا جلانے کی بجائے گاؤں میں موجود پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں پر رسیوں کے ساتھ باندھ کر لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ گاؤں میں داخل ہوتے ہی دور سے ان پر نظر پڑتی رہے۔یہاں کے لوگ لاشوں کو لیٹا کر محفوظ کرنے کی بجائے انہیں بیٹھنے کے انداز میں محفوظ کرتے ہیں۔ جبکہ پہاڑوں پر بانس کی لکڑی سے ٹوکریاں بنا کر ان میں ممی کو بیٹھا کر اس کے ہاتھوں اور ٹخنوں کو رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ مردے کے منہ،کان اور ناک کو سی دیا جاتا ہے تاکہ باہر سے کوئی بھی چیز جسم کے اندر داخل نہ ہوسکے۔جب ایک دفعہ لاش کو دھویں سے سکھا لیا جاتا ہے تو اس پر مٹی سے لیپ کر دیا جاتا ہے،اس سے ممی گلنے سڑنے سے محفوظ رہتی ہے۔ آنگا قبیلے کے لوگ اپنے مُردوں کو مختلف تہوارو ں کے دوران پہاڑوں کی چوٹیوں سے اتار کر نیچے لے آتے ہیں اور تہواروں کے ختم ہونے پر انہیں دوبارہ پہاڑوں پر چھوڑ آتے ہیں۔ آنگا قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ممی بنائے گئے مُردوں میں زیادہ تعداد جنگجوؤں کی ہے اور انہیں یقین ہے کہ ان کے جنگجو مرنے کے بعد بھی ان کی حفاظت کررہے ہیں۔ اسی لئے جنگجوئوں کی لاشوں کیلئے خاص جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ آنگا قبیلے کی ممیوں میں دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوجیوں کے ہاتھوں مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔لاشوں کو ممی بنانے کا یہ انداز کئی لوگوں کو خطرناک اور ڈراؤنا لگ سکتا ہے اسی لئے 1975ء میں پاپواجینوا کی آزادی کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ آنگا قبیلے کے کچھ لوگ ابھی بھی اس طریقے پر قائم ہیں جبکہ دیگر قبیلے کے لوگ اب اپنی لاشوں کو دفنانے لگے ہیں۔''

''موت پر پرتکلف ضیافت کا اہتمام''


''انڈونیشیا کے علاقے جنوبی سولاویسی میں موت پر علاقے کے تمام لوگوں کیلئے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں درجنوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں ۔اس قبیلے میں لوگ زندگی بھر اس لئے پیسے جمع کرتے ہیں تاکہ ان کے مرنے پر کھانے کا خاص انتظام کیا جاسکے۔ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی لاش کو گھر کے تہہ خانے میں کئی دن کیلئے محفوظ کر دیا جاتا ہے، اس دوران خاندان بھر سے پیسے جمع کئے جاتے ہیں تاکہ دفنانے والے دن مہمانوں کیلئے ایک شاندار کھانا تیار کیا جاسکے۔اس ضیافت میں قبیلے کے باہر کے لوگ بھی جا سکتے ہیں، اس شرط پر کہ وہ لال یا کالے رنگ کے لباس نہیں پہنیں گے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ُمردوں کو دفنانے کیلئے بھی ایک الگ طریقہ اپنایا گیا ہے جس کے تحت مردے کو زمین میں دفنانے کی بجائے چٹانوں میں دفنایا جاتا ہے۔ دفنانے کیلئے یا تو پہاڑوں کی چٹانوں میں سوراخ کر کے مردے کو اس میں دفنا دیا جاتا ہے یا پھر پہاڑوں کے ساتھ تابوت میں مردے کو ڈال کر لٹکا دیا جاتا ہے۔ دفنانے کے بعد مردے کی شکل کی ایک مورتی بنائی جاتی ہے اور اس مورتی کو چٹان کے باہر لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ مر جانے والے شخص کی روح اس مورتی میں آکر اپنی آخری آرام گاہ کو دیکھ سکے۔اس قبیلے کی ایک اور روایت ہے کہ اگر کوئی بچہ فوت ہو جائے تو اسے ان پہاڑوں پر دفنانے کی بجائے درختوں میں دفنایا جاتا ہے۔ بچے کی ماں، بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر درخت میں سوراخ کر کے اس میں لیٹا دیتی ہے۔اوپر سے سوراخ کو بند کر دیا جاتا ہے جیسے جیسے درخت کا سوراخ مندمل ہوتا ہے ویسے سمجھا جاتا ہے کہ مرنے والے بچہ اس میں جذب ہو ہا ہے۔''

''بیٹی کی پیدائش پر 111 نئے پودے لگائے جاتے ہیں''

''اگرچہ ہندو مذہب میں لڑکیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا لیکن بھارت کی ریاست راجھستان میں بیٹی کی پیدائش کی خوشی میں علاقے میں ایک سو گیارہ نئے پودے لگائے جاتے ہیں۔اگر سالانہ ساٹھ لڑکیاں پیدا ہوں تو گاؤں والے ایک سال میں ڈھائی لاکھ درخت اگا لیتے ہیں۔ گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ جس طرح لڑکیاں بڑی ہو کر خاندان کو بڑھاتی اور پروان چڑھاتی ہیں ویسے ہی درخت بھی ان کے ساتھ بڑے ہوکر پھل دینے لگتے ہیں۔''

Post a Comment Blogger

 
Top