امریکا طالبان معاہدہ سے افغانستان نے تاریخ کا ایک سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ جن نگاہوں میں طالبان اور کابل سیاسی کشمکش اور خطے کی خونریزی ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہ ہوسکی وہ اس عہد آفرین معاہدہ کو امکانات ، توقعات اور سنگین خدشات کی اوٹ سے دیکھتے ہیں، وہ اس ’’بلو بیک‘‘ یعنی سیاسی دھچکے کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں جو افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اس بیان سے جھلکتا ہے جس میں انھوں نے امریکا طالبان معاہدہ کے تحت پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کی شرط کو ماننے سے انکارکر دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی افغان حکومت کا استحقاق ہے ، امریکا کا اختیارنہیں ، وہ یہ معاملہ انٹرا افغان مذاکرات میں طے کریں گے۔
یہاں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کی اہم شق پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی پر اعتراض کیا اور کہا افغان حکومت کی قید میں اسیر پانچ ہزار سے زائد طالبان رہنماؤں اور جنگجوؤں کی رہائی کا فیصلہ افغان حکومت نے کرنا ہے۔ یہ معاملہ انٹرا افغان مذاکرت میں رکھا جاسکتا ہے جس میں باہمی مشاورت سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک طرف تجزیہ کار افغان انٹرا مذاکرات میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں دوسری جانب صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات کے لیے اگلے 9 دنوں میں مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی جائے گی۔
فی الحال فریقین کے درمیان سات روزہ جزوی جنگ بندی ہے تاہم مکمل جنگ بندی کے حصول کے لیے ہر آئینی اور قانونی راستہ اپنائیں گے۔ انھوں نے کہا وہ امن معاہدے پر پاکستان کے شکر گزارہیں اور اس کے تعاون کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ادھر ایران نے بھی امریکا اور افغان طالبان کے معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں رکھتا ، افغانستان میں دیرپا امن صرف انٹرا افغان مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے اتوار کوجاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات میں طالبان سمیت تمام سیاسی گروپ شامل ہونے چاہئیں۔ ان مذاکرات میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے تحفظات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ ایران سمجھتا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی غیر قانونی ہے۔ ان افواج کا انخلا افغانستان میں امن وسلامتی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ ان افواج کی واپسی طے کرنے والا کوئی بھی اقدام اس ملک میں قیام امن میں معاون ثابت ہوگا۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جو بادی ا لنظرمیں اپنے بڑے اقدامات اور غیر معمولی پالیسی فیصلوں سے اپنے آیندہ کے انتخابی روڈ میپ کا اسکرپٹ تیارکرچکے ہیں۔ افغان امریکا معاہدہ کے سیاق وسباق میں وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد وہ افغانستان سے جلد فوج واپس بلانا شروع کر دیں گے تاہم ان کا یہ انتباہ بھی قابل غور ہے کہ معاہدے میں اگر بری چیزیں ہوئیں تو اتنی بڑی فوج بھیجیں گے جو کسی نے نہیں دیکھی ہوگی، امید ہے اس کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس طرح افغان طالبان معاہدہ طے پاجانے کے بعد خطے کی نئی سیاسی اور تزویراتی حرکیات کے لحاظ سے کشمکش کی تاریخ ساز پیش رفت سے معمور ہوگا جب کہ طالبان اور امریکا کے مابین جنگ کا ڈراپ سین بھی عالمی طاقتوں ، یورپی ، ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کی عسکری اور سیاسی اندیشوں، ترجیحات اور زمینی تپش سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا، بالخصوص وہ شراکت دار نو برس ہا برس سے افغان عمل کے لیے سیاسی ، اقتصادی ، عسکری ، سفارتی اور عالمی حمایت کی پیش کشوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے ، وہ پاکستان کے خصوصی اور تاریخی کردار کو فراموش نہیں کرسکتے ، امریکا اور طالبان کے مابین معاہدہ کی کوششوں میں خلیل زلمے زادکا کردار بھی نمایاں اور منفرد ہے۔
لیکن کیا افغانستان کی پوری تاریخ اس ایک معاہدہ کی سیاہی خشک ہونے تک اپنے ماضی کے ہولناکی، خونریزی اور تہلکہ خیزیت سے جدا ہوجائے گی ؟ ہرگز نہیں، واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدرٹرمپ نے مذکورہ معاہدہ میں طالبان کو غیر معمولی مراعات اور لیوریج دی ہے، ان سے طالبان کی ڈیل میں تاریخ کا پلڑا طالبان کے حق میں بھاری ہوگیا، تاہم تمام تجزیوں، اندیشوں، توقعات اور امکانات کے باوجود افغانستان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے بین الافغان مذاکرات میں جامع فائربندی اور افغان سیاسی مسئلہ کا دیرپا حال اس کے سیاسی روڈ میپ کی تیاری میں معاونت کریگا اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اب تاریخ سے سبق سیکھنے والی وہ سرفراز سیاسی قوتیں ہی کرسکیں گی۔
جنھیں افغان عوام کے دکھوں کا ادراک ہوگا اور جو خطے میں امن و استحکام کے لیے ہر وہ قربانی دیں گی جو اب تک فرنٹ لائن کے حامل کلیدی ملک پاکستان دیتا چلا آرہا ہے، اب گیند طالبان کے کورٹ میں ہے، انھیں عالمی شراکت داروں سے مل کر کام کرنا پڑیگا، جنگ کی سٹریٹجی اور کشمکش، محاذ آرائی اور قتل و غارت کے تمام عہد وپیماں ترک کرنا پڑیں گے، دنیا اس معاہدہ کو اس کی روح اور الفاظ کی روشنی میں بروئے کار دیکھنے کی تمنائی ہے، امریکا اور طالبان سمیت خطے کے تمام شراکت دار، صدر اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ ، افغان اشرافیہ ا اور مختلف دھڑوں کے سر خیل اپنے عظیم تر تعاون ،جمہوری اسپرٹ اور مذہبی و شرعی اخلاص سے خطے میں امن کا پرچم بلند کریں گے، لہذا وار لارڈز کو بھی گریٹر سیاسی اشتراک عمل کے باب میں اپنا سیاسی، سماجی، معاشی اور تزویراتی طرز عمل بدلنا چاہیے۔ عالمی برادری کو امریکا اور طالبان سے بڑی توقعات ہیں، ان کوہر قیمت پر پوا ہونا چاہیے۔
کچھ عرصہ قبل افغانستان نے آخری روسی فوجی کی اپنی دھرتی سے رخصت ہونے کی 31 سالگرہ منائی تھی،آج کچھ قوتیں امریکا طالبان معاہدہ کو طالبان کی فتح اور امریکا کی شکست سے تعبیر کر رہی ہیں، کچھ حلقے مختلف سیاسی رائے کا اظہارکرتے ہیں، پاکستان کے کروڑوں عوام کو افغان امن کے اس مرحلہ پر بھی اپنے ان شہدا اور عوام کی قربانیاں یاد آتی ہیں جو انھوں نے اپنے وطن کی خاطر دہشتگردی کے خلاف جنگ اور طالبائزیشن کے دور میں دی تھیں ،مگر پاکستان کے عوام ،پاک فوج ،سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی افغان امن کاز کے لیے دعاگو ہے، یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ افغان طالبان تمام دھڑوں کی مخلوط حکومت میں شمولیت پر آمادہ ہیں ، اب افغان مسئلے کے دیرپا حل کے لیے تمام نظریں انٹرا افغان ڈائیلاگ پر لگی ہیں، لازم ہے کہ افغان سرزمین اب کسی کے خلاف استعمال نہ ہو، قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر بھی دوراندیشی اورسیاسی بصیرت سے کام لیا جائے، طالبان اورافغان حکمراں زیتون کی شاخ کو مشترکہ عزم کے ساتھ تھام لیں، یہی خطے کی تمنا ہے۔
The post امریکا ،افغان معاہدہ…خدشات وتوقعات appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39jedka
Post a Comment Blogger Facebook